دہلی

درگاہ اجمیر شریف پر مندر کے دعوی ہندوستان کے قلب پر حملہ کی مانند:مولانا محمود مدنی

مولانا محمود مدنی نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرپرستی سے بازآئیں ، ورنہ تاریخ ان کی اس روش کو معاف نہیں کرے گی ۔

نئی دہلی: خواجہ خواجگان سلطان الہند حضرت معین ا لدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ پر مندر کے دعوی کوصدر جمعیۃ علماء ہند (م) مولانا محمود اسعد مدنی نے ہندوستان کے قلب پر حملے سے تعبیر کیا ہے آج یہاں جاری ریلیز کے مطابق انہوں نے حکومت سے ملک بھر میں مساجد کے سلسلے میں جاری شر انگیزی پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ خبریں
مسلمانوں کے تمام مسائل کو حل کرنے چیف منسٹر کا تیقن
شمس آباد کی مندر میں مورتی کو نقصان، ایک شخص گرفتار
مندر میں اسٹیج منہدم، ایک عورت ہلاک
فرقہ واریت کا نعرہ لگانے والے ملک کے دشمن:مدنی

 انھوں نے اس سلسلے میں اترکاشی (اتراکھنڈ) کی جامع مسجد کے خلاف مہم اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے فرقہ پرستوں کو پنچایت کی اجازت دیے جانے پر سخت تنقید کی ہے اور کہا کہ ایسے لوگوں کو ہر جگہ حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے، جس کے نتائج ملک میں انارکی اور نفرت کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں ۔

 انھوں نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرپرستی سے بازآئیں ، ورنہ تاریخ ان کی اس روش کو معاف نہیں کرے گی ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جہاں تک اجمیر شریف کی درگاہ کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں کیا جانے والا یہ دعوی مضحکہ خیز اور لائق ملامت ہے، ایسے دعوی کوعدالت سے فوراً خارج کردیا جانا چاہیے تھا ۔

مولانا مدنی نے خواجہ صاحب ؒ کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت خواجہ صاحب ؒ فقیر بے نوا تھے ، جنھوں نے کسی اقلیم پر حکومت نہیں کی بلکہ انھوں نے دلوں پر حکومت کی، اسی وجہ سے آپ ’سلطان الہند‘ کہلائے ۔

 ایک ہزار سال سے آپ اس ملک کی پہچان ہیں اور آپ کی شخصیت امن کے پیغامبر کے طور پر معروف ہے۔ غریبوں کی بندہ پروری کی وجہ سے عوام نے آپ کو غریب نواز کا بھی لقب دیا ۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ غریب نوازؒ کی زندگی کا سب سے اہم پہلو خلق خدا سے محبت ہے ۔انسانی اخوت، مساوات اور غریب نوازی کی ہمہ گیر روایات جو انھوں نے قائم کیں، وہ بلالحاظ مذہب وملت تمام ہندستانیو ں کا یکساں ورثہ ہے ۔ ان کے یہاں انسانی خدمت میں مسلموں اور غیر مسلموں میں کوئی تفریق نہ تھی ۔

ان کے دروازے جس طرح مسلمانوں پر کھلے ہوئے تھے ،اسی طرح دوسرے مذاہب والوں پر بھی کھلے رہے اور کسی امتیاز کے بغیر اپنی محبت سے دلوں میں گرمی اور دماغوں میں تازگی بخشتے رہے ۔ہندستان کے عظیم مفکر مسٹر سی راجگوپال اچاریہ( اولین ہندستانی گورنر جنرل ) نے درگاہ کی زیارت کے موقع پر کہا تھا کہ انھوں نے عظیم کردار،محبت کی نگاہ اور شفقت کی زبان میں اس طرح سے لوگوں سے بات کی کہ لوگوں کے دل بدل دیے ۔

 مہاتماگاندھی نے ۱۹۲۲ء میں اجمیر شریف کے دورے کے وقت کہا تھا کہ خواجہ صاحب کی زندگی انسانوں سے محبت کی روشن زندگی ہے ، سچائی پھیلانے کا ان کا اپنا ایک مشن تھا ، لیکن ان کا سارا جیون اہنسا کا اپدیش دیتا ہے ۔