حیدرآباد

بنگال میں بابری مسجد کی بنیاد رکھنے پر تنازع، ملعون راجہ سنگھ نے دی دھمکی

بنگال میں 6 دسمبر کو ایک بڑا سیاسی تنازع کھڑا ہوگیا، جب ٹی ایم سی کے ایک ایم ایل اے نے یہ اعلان کیا تھا کہ ریاست میں ایک نئی مسجد ’بابری مسجد‘ کے نام سے تعمیر کی جائے گی۔

بنگال میں 6 دسمبر کو ایک بڑا سیاسی تنازع کھڑا ہوگیا، جب ٹی ایم سی کے ایک ایم ایل اے نے یہ اعلان کیا تھا کہ ریاست میں ایک نئی مسجد ’بابری مسجد‘ کے نام سے تعمیر کی جائے گی۔ اعلان کے بعد بڑی تعداد میں ان کے حامی اینٹیں اور دیگر تعمیراتی سامان لے کر پہنچے اور مسجد کی بنیاد رکھی۔

متعلقہ خبریں
بابری مسجد کیلئے جدوجہد جاری رہے گی: سعید آباد خواتین
مساجد کی رونق باجماعت نماز سے، ایمان کی حفاظت اسی میں ہے: مفتی صابر پاشاہ
میوا کی جانب سے زیڈ ایچ مسعود کے اعزاز میں شاندار تہنیتی تقریب،اکتالیس سالہ تعلیمی خدمات کا بھرپور اعتراف
یونانی ڈرگس انڈسٹری کی عالمی سطح پر زبردست اہمیت، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ‘ مستقبل روشن
ڈی جے ایس کے صدر ایم اے مجید نے بابری مسجد کی شہادت کی برسی پر روشنی ڈالی؛ مذہبی مقامات کے تحفظ کی اپیل

اس واقعے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں سیاسی ردعمل سامنے آیا—کچھ حلقوں نے اسے ایم ایل اے کی "جرأت مندانہ کارروائی” قرار دیا، جبکہ کئی افراد نے اس پر تنقید بھی کی۔

راجہ سنگھ کے بیان پر اختلافات

گوشہ محل کے ایم ایل اے راجہ سنگھ نے اس معاملے پر ایک ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں مسجد کی بنیاد رکھنے کے عمل پر اعتراض کیا اور سخت جملے استعمال کیے۔
راجہ سنگھ نے کہا کہ ’میں چیالنج کرتا ہوں کہ بھارت کے رام بھکتوں کو لے جاکر بابر کا نام جس طرح ایودھیا میں مٹایا گیا تھا ویسے ہی بنگال میں بھی رام بھکت جائے گا اور بابر کے نام پر بنی مسجد کی ایک ایک اینٹ کو سماپت کرے گا’
راجہ سنگھ نے مزید کہا کہا بنگال پر ایک راکششی راج ہے جس کو ختم کرنے کی تیاری کرنی چاہئے۔

راجہ سنگھ کے اس بیان کے بعد سوشیل میڈیا اور سیاست کی دنیا میں پھر ایک بار بحث چھڑ گئی ہے۔

ٹی ایم سی کی کارروائی

ٹی ایم سی نے پہلے ہی ایم ایل اے کو پارٹی سے معطل کردیا ہے اور پارٹی قیادت کا کہنا ہے کہ ایم ایل اے کا یہ اقدام بغیر اجازت اور پارٹی کی پالیسی کے خلاف تھا، اسی لیے ان کے خلاف نظم و ضبط کے تحت کارروائی کرتے ہوئے فوری طور پر معطل کیا گیا۔ٹی ایم سی رہنماؤں نے عوام سے اپیل کی کہ ریاست میں امن و امان برقرار رکھا جائے اور کسی طرح کے فرقہ وارانہ ماحول کو ہوا نہ دی جائے۔