مذہبی رہنماؤں کے خلاف گستاخی پر عمر قید کی سزا کا مطالبہ: مسلم یونائٹڈ فیڈریشن
ہر مذہب کے لوگ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہیں، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے مذہبی رواداری میں فرقہ پرستی کا زہر گھولنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔"
حیدرآباد: مسلم یونائٹڈ فیڈریشن نے کسی بھی مذہب کے رہنماؤں کے خلاف گستاخی کرنے والوں کے لیے عمر قید کی سزا کا مطالبہ کیا ہے، خاص طور پر جب تک یتی نرسنگ آنند کو سزا نہیں مل جاتی۔
فیڈریشن نے یہ بات کہی کہ ہمارا ملک بھارت ایک ہما مذہبی دیش ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہیں اور مذہبی ہم آہنگی کے پیغام کو فروغ دیتے ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں مذہبی رواداری کے ماحول میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا گیا ہے، جبکہ چند عناصر اپنے سیاسی مفادات کے لیے معصوم عوام کو دوسرے مذاہب کے خلاف اکسا رہے ہیں۔
فیڈریشن نے یہ بھی کہا کہ مذہبی منافرت پھیلانے والے خود ساختہ مذہب کے ٹھیکیدار ہیں۔ ان کے خلاف مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے کوئی ٹھوس کاروائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔
عیسائی اور مسلم کمیونٹیز پر ہجومی تشدد کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں، جبکہ قانونی ادارے اکثر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، جو بھارت کے آئین کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
فیڈریشن نے یہ بھی کہا کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں پر تشدد کا نشانہ بنانا ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے، جس کے تدارک کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یتی نرسنگ آنند کا حوالہ دیا، جو پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے اور جسے جیل سے مشروط رہائی ملی تھی۔ اس کے باوجود وہ مذہبی منافرت پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
مسلم یونائٹڈ فیڈریشن کے صدر مولانا حکیم صوفی سید شاہ محمد خیر الدین قادری، نائب صدر مولانا ڈاکٹر سید آصف عمری، نائب صدر محمد عبدالکریم فہم، نائب صدر میر عنایت علی باقری، نائب صدر سکندر اللہ خان، نائب صدر مولانا ریاض الدین نقشبندی، جنرل سیکرٹری سید متین احمد، خازن اے اے کے امین، سیکرٹریز ایم اے ستار، سید ایوب پاشاہ قادری، مولانا محمد نور خان، سید صدیق اللہ حسینی، عظمی شاکر شعبہ خواتین، صدر یاسمین بیگم، اور جنرل سیکرٹری عاصمہ بیگم نے اپنے مشترکہ بیان میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے پرزور مطالبہ کیا کہ کسی بھی مذہب کے رہنماؤں کے خلاف گستاخی کرنے والوں کو عمر قید کی سزا دی جائے۔
اس میں ملک کی سالمیت اور بھائی چارے کی بہتری ہے۔ اگر ان فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے تو ملک میں مذہبی منافرت بڑھتی جائے گی، اور بھارت کی یکجہتی، جو ساری دنیا میں مشہور ہے، پر بدنما داغ لگ جائے گا۔ بھارت کے 140 کروڑ عوام کو اس اہم ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لے کر اپنے وطن عزیز کی شبیہ مسخ کرنے والوں کے خلاف میدان عمل میں آنا چاہیے۔