مذہبسوشیل میڈیا

کیا مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کی ڈیبیٹ کے بعد کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا؟ ویڈیو

جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان ’Does God Exist‘ کے موضوع پر ہونے والی بحث کے بعد سوشل میڈیا پر یہ دعوے تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں کہ کئی افراد نے اس مناظرے کو دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔

جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان ’Does God Exist‘ کے موضوع پر ہونے والی بحث کے بعد سوشل میڈیا پر یہ دعوے تیزی سے وائرل ہو رہے ہیں کہ کئی افراد نے اس مناظرے کو دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے، تاہم یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس حوالے سے بڑے پیمانے پر گفتگو جاری ہے۔

متعلقہ خبریں
ایم پی کنگنا ہتک عزت کیس میں عدالت میں پیش ہوں گی
اداکارہ کنگنارناوت بمبئی ہائیکورٹ سے رجوع
مظفر نگر اسکول واقعہ پر جاوید اختر، رینوکا شاہانے اور پرکاش راج کا رد عمل
سشانت کی موت کے بعد کنگنا کے بیانات ”جھوٹے“: جاوید اختر

خدا کے وجود پر ہونے والی اس بحث میں معروف شاعر و اسکرپٹ رائٹر Javed Akhtar اور نوجوان اسلامک اسکالر Mufti Shamail Nadvi آمنے سامنے تھے۔ بحث کے دوران مفتی شمائل ندوی نے عقلی اور فکری دلائل کے ذریعے خدا کے وجود پر اپنا موقف پیش کیا، جب کہ جاوید اختر نے الحادی نقطۂ نظر کی نمائندگی کی۔

ڈیبیٹ کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز کے کمنٹس میں کئی صارفین نے مفتی شمائل ندوی کے اندازِ گفتگو اور دلائل کی کھل کر تعریف کی۔ متعدد کمنٹس میں خود کو غیر مسلم بتانے والے افراد نے یہ لکھا کہ اس بحث نے ان کی سوچ بدل دی اور وہ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ بعض صارفین نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس مناظرے کو دیکھنے کے بعد اسلام قبول کرلیا ہے۔

تاہم یہ بات بھی واضح کی جا تی ہے کہ انفرادی کمنٹس کی بنیاد پر کسی کے اسلام قبول کرنے کی حتمی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ نہ تو اس حوالے سے کوئی تصدیق سامنے آئی ہے اور نہ ہی ان دعوؤں کی مکمل جانچ ممکن ہو سکی ہے۔ اس کے باوجود، یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ اس ڈیبیٹ نے بڑی تعداد میں لوگوں کو سوچنے اور مذہب کے حوالے سے سوالات اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔

یہ مناظرہ یوٹیوب پر چند ہی گھنٹوں میں لاکھوں مرتبہ دیکھا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے وجود جیسے بنیادی موضوعات پر ہونے والی علمی گفتگو آج بھی عوامی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے مباحثوں کا اصل اثر فوری نتائج سے زیادہ فکری مکالمے اور شعور کی بیداری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

مجموعی طور پر، جاوید اختر اور مفتی شمائل ندوی کے درمیان ہونے والی اس بحث نے نہ صرف سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے بلکہ مذہب، عقل اور ایمان کے موضوعات کو ایک بار پھر عوامی گفتگو کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔