مضامین

یوم جمہوریہ اور جمہوریت کے وجود پر لگے سوالیہ نشان

محمد ضیاءالدین

آج کا دن بھارت کی تاریخ کا ایک نہایت اہم دن ہے کہ سات دہائی قبل آج ہی کے دن ہمارا ملک ایک نئے نظام سے روشناس ہوا، آج ہی کے دن یہ اعلان ہوا کہ یہ ملک اب اس ملک کے عوام کا ہے اور ملک کا ہر فرد اس ملک کی تقدیر کا مالک ہے کہ اس سے قبل اس ملک کی تقدیر کے مالک راجہ بادشاہ ہواکرتے تھے جو مطلق العنان ہوتے جن کے فیصلے سب کے لیے لازمی ہوتے اور جن کافرمان حرف آخر ہوتا جس سے سرتابی کی کسی کو مجال نہ تھی۔ وہ دور آمرانہ دور حکومت تھا جہاں فرمان روائے ملک کے انتقال پر اس کا جانشین تخت و تاج کا مالک ہوتا یا پھر کوئی اور شہہ زور طاقت کے بل پر کسی بادشاہ کو شکست دے کر خود ہی ملک کا مالک بن جاتا، لیکن 26 جنوری 1950ءسے ایک نیا نظام روشناس کرایا گیا جو جمہوری نظام کہلایا۔ باوجود بے شمار خرابیوں کے یہ نظام اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس نظام کے مطابق کوئی کسی کا مالک اور کوئی کسی کا غلام نہیں اور یوں اس نظام کے تحت اس ملک کی ایک بڑی آبادی کو دو طرح کی غلامی کے چنگل سے باہر نکالا گیا ایک غلامی تو وہ تھی کی ساری پرجا اس شخص کی غلام ہوتی جو راجہ یا بادشاہ کہلاتا اور دوسری غلامی یہ تھی کہ اس ملک کی ایک بڑی اکثریت وہ بدنصیب طبقہ تھی جو ذات پات کے نام پر سب کی غلام تھی، اس لحاظ سے یہ بدتر غلامی تھی جبکہ اول الذکر غلامی میں عام آدمی راست غلام نہ تھا شاید یہی وجہ تھی کہ راجاﺅں اور بادشاہوں کے آٹھ سو سالہ دور میں کبھی بھی عوام اس غلامی کے خلاف اس طرح اٹھ کر نہیں کھڑے ہوئے جس طرح کے انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے تھے۔ اس لحاظ یہ دن ایک تاریخی دن جس نے اس ملک کی بڑی آبادی کو ذات پات کے نظام سے آزادی کا مژدہ سنایا تھا‘ آج ہی کے دن اس ملک کے دستور کا نفاذ عمل میں آیا ۔دستور جو ایک تحریری دستاویز ہے جو اس ملک کے عوام کو مساوات ، ہر طرح کی شخصی آزادی کا تیقن دیتی ہے، اس دستور کی رو سے ملک کے تمام باشندگان بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل کے مساوی ہیں۔ ان کے مابین مندرجہ بالا کسی وجہ کے سبب کسی بھی قسم کا امتیاز یعنی دستور سے انحراف اور دستور سے انحراف کرنے والا اس ملک کے قانون کا بالفاظ دیگر اس ملک کا غدار ہے ۔یہی دستور کی وہ خوبی ہے جس نے ہمارے ملک کو اقطاع عالم میں ایک ممتاز مقام عطا کیا تھا اور ایک طویل عرصے تک ساری دنیا میں اس ملک کی شہرت ایک عظیم جمہوریت کی تھی (باوجود اس کے کہ اس جمہوریت میں بھی ہزار خامیاں تھیں ) تاہم اقتدار پر فائز لوگ دستور کو ہی مقدم مانتے اور اس کے مطابق چلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے حالانکہ تاریخ کے اوراق پر یہ بھی درج ہے کہ دستور کے نفاذ کے بعد بھی غریب اور کمزور طبقات کو وہ درجہ نہیں ملا جو دستور کی رو سے ان کا حق تھا۔ یہ بھی ہوا کہ اس دوران اس ملک مین انتیس ہزار فسادات ہوئے جن کا شکار اس ملک کے مسلمان ہوئے، جنھیں اپنے مسلمان ہونے کی قیمت اپنی جان مال و عزت آبرو سے ہاتھ دھوکر چکانی پڑی اور یہاں دستور کے شخصی آزادی اور مساوات کے تیقنات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہ بھی ہوا اس ملک کے کمزور طبقات کو ظلم زیادتی اور ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا محض اس لیے کہ وہ کمزور تھے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
اور اس ملک کی اقلیتیں اس ملک کے کمزور اور پچھڑے طبقات اپنی کمزوری اور ضعیفی کے جرم کی سزا مرگ مفاجات کی شکل میں بھگتتے رہے تاہم ان ناانصافیوں اور مظالم کے باوجود مظلوموں کو اس ملک کے دستور پر بھروسہ تھا۔، حکومتوں پر سے ان کا یقین ابھی ختم نہیں ہوا تھا وہ اپنے حقوق کے لیے عدلیہ کی جانب آس اور امید بھری نظروں سے دیکھتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ اگر انتظامیہ ظالموں کے ساتھ ہے تو عدلیہ ضرور ان کے ساتھ رہے گی۔ حکومتیں گو کہ مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کررہی ہیں وہ عدلیہ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گی، کیوں کہ ان کا ایقان تھا کہ اس ملک کی عدلیہ نہ صرف آزاد و غیر جانبدار ہے بلکہ اتنی مضبوط ہیں کہ بے لگام انتظامیہ و اپنی حد سے بڑھنے والے مقننہ کو لگام لگا سکتی ہے، وہیں انھیں اس بات پر بھی فخر تھا کہ وہ اس ملک کے کارپرداز ہیں اور ان کی کاوشیں اس ملک کی ترقی کی ضامن ہیں۔ دوسری طر ف حکوتیں بھی باوجود اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے جمہوریت کے آگے سر خم کرتی تھیں۔ عدلیہ کا ادب واحترام باقی تھا، ججوں کو بلیک میل کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ظلم کے شکار لوگوں کو اپنے جذبات کے اظہار کی آزادی چھینی نہیں گئی تھی۔ حکومتیں کسی بھی ذات مذہب یا فرقے طبقہ کے بارے میں کسی بھی قسم کی منافرت کا اظہار نہیں کرتی تھیں ( یہ بھی ہے کہ حکومتوں میں موجود کالی بھیڑیں اندر ہی اندر اپنی معاندانہ روش جاری رکھے ہوے تھیں جس کا بین ثبوت سچرکمیٹی کی رپورٹ ) یہی سبب تھا کہ لوگ جمہوریت کے وجود کے تعلق سے پرامید تھے ۔ملک کے چوتھے ستون نے ابھی دم نہیں ڈالی تھی بلکہ حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتا تھا اور حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتا تھا ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا تھا اور حکومت بھی یہ مانتی تھی کہ عوامی مفاد میں آواز اٹھانا میڈیا کی ذمہ داری ہی نہیں فرض ہے، اس لیے وہ پریس کا احترام کرتی تھی اور اپنے خلاف اٹھائی جانے والی آوازکا احترام کرتی تھی جس کے سبب اس ملک میں جمہوریت کے زندہ ہونے کا احساس برقرار رہتا تھا، لیکن پھر ایک ایسی لہر چلی کہ اس نے سارے منظرنامے کو ہی بدل کر رکھ دیا اور اس بدلتے منظرنامے کا ثبوت دینے کے لیے سب سے پہلے بر سر عام دستور کو جلایا گیا اور اس کے جلانے والوں کا اطمینان اس بات کا غماز تھا کہ ان کو کسی بھی طرح کے نتایج و عواقب کی فکر نہیں اور وقت نے ثابت کردیا کہ دستور جسے ملک کی سب سے قابل قدر دستاویز مانا جاتا ہے اور اس ملک کے لا اینڈ آرڈر اور ملکی معاملت کو سکون و خوش اسلوبی سے چلانے کی اساس ہے اسے شرپسندوں کی جانب سے یوں جلایا جانا اور اس کے لیے انھیں کوئی عبرت ناک سزا نہ ملنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے اب دستور کی وہ وقعت نہیں رہی بھلے زبانی جمع خرچ کتنا بھی کیا جائے ۔اس ملک کا دستور اور اس ملک کی جمہوریت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دستور ہی اس ملک میں جمہوریت کا ضامن ہے اور جب دستور کے ساتھ یہ سلوک کیا جاسکتا ہے تو پھر جمہوریت کا ذکر ہی کیا۔ چونکہ اس ملک کے کچھ طبقات اس ملک کے دستور سے خار کھائے ہوئے ہیں، اسی لیے بار بار دستور میں تبدیلی کی آوازیں اٹھائی جاتی ہیں تاکہ ان کو اپنی من مانی کرنے کا موقع مل سکے جس کے خواب وہ برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ گرچہ کہ وہ راست دستور پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کر پارہے لیکن اپنی حرکتوں سے وہ دستور اور اس کے تیقنات بالفاظ دیگر اس کی عظمت سے چھیڑچھاڑکر کے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس دستور کی کوئی قیمت نہیں ہے اور وہ لوگ خاموش تماشائی بنے نظارہ دیکھ رہے ہیں جن کافرض ہے کہ وہ ایسے بدمعاش لوگوں پر نکیل کسیں اور ان کو قرار واقعی سزا دیں، گویا کہ وہ خود بھی یہی چاہتے، لیکن دستور کے سبب ایسا نہ کرنے پر مجبور ہیں، لیکن ان کے بغل بچے آئے دن دستور کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے جس کے بل پر وہ لوگوں کو ان کے دستوری حقوق سے محروم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ دستور ہرفرد کو اپنی پسند کی غذا کھانے کی آزادی فراہم کرتا ہے لیکن دستور کے دشمن لوگوں سے ان کا یہ حق چھیننا چاہتے ہیں۔ گاﺅکشی کی فرضی الزام تراشی کرکے یکا دکا لوگوں کو پکڑکر ہجوم کی جانب سے مارپیٹ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی دل آزاری ایک عام بات ہوگئی ہے جس کو سرکاروں کی حمایت بلکہ درپردہ مدد کی جارہی ہے۔ آئے دن متنازعہ قسم کے اشوز اٹھاے جارہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر منافرت پھیلے۔ ملک کی اس صورتحال سے واضح ہے کہ دستور بالفاظ دیگر جمہوریت کو ختم کیا جارہا ہے جس کے سبب یہ لگتا ہے کہ ہم جو یوم جمہوریہ منارہے ہیں وہ ایک کھوکھلا عمل جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے دس برسوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ اب سارے جمہوری تقاضوں اور اصولوں کو بالاے طاق رکھا جارہا ہے جو ایک سنگین صورت حال ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صورت حال صرف مسلمانون کے ساتھ ہے بلکہ نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر اقلیتوں کے جمہوری حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جارہا ہے اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ سب کو دبا کر رکھا جاے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت ساراملک تناﺅ میں اور دباو میں ہے۔ یہ بات اگر عام لوگ کہیں تو شاید اس کی اہمیت نہ ہو، لیکن یہ بات اس وقت بہت اہم اور سنگین ہوجاتی ہے جب اس ملک کی نامور شخصیات اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ریٹائرڈ افسران کی جانب سے بار بار اس امر پر اظہار تشویش کیا جارہا ہے کہ یہ ملک اپنی روش سے ہٹتا جارہا ہے اور لوگوں کے جمہوری حقوق دبائے جارہے ہیں نہ صرف عام لوگ بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کو دبانے کے لیے ایجنسیز کا بے محابہ استعمال کیا جارہا ہے جو ایک نئی روایت ہے ۔ علاوہ ازیں بر سر اقتدار سے اختلاف رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے منتخبہ اراکین کو یا تو پیسوں سے خریدا جارہا ہے یا پھر ان پر مختلف ذرایع سے دباﺅ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کریں بصورت دیگر ان کو نتایج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ منتخبہ حکومتیں الٹ دی جارہی ہیں ۔ اگر یہ صورت حال ہو تو پھر ہم کیسے جمہوریت کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ آج ہر طرف سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ سارے انتظامی ادارے حکومت کے اشارے پر چلنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ عدلیہ کے رول پر بھی پہلی بار سوالات اٹھ رہے ہیں انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور کئی معاملات ایسے سامنے آئے ہیں جنھیں دیکھ کر لوگ حیرت کے شکار ہیں۔ آزادی کے بعد پہلی بار یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ذرایع ابلاغ بھی حکومت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور معمول سے ہٹ کر بجائے حکومت سے سوال کرنے کے حکومت سے سوال کرنے والوں پر ہی سوال پر سوال اٹھا رہے ہیں جو اس سے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عوامی مسائل سے دھیان ہٹانے کے لیے آئے دن متنازعہ مسائل اٹھاے جاتے ہیں اور یوں جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ شاید اسی سبب پہلی بار میڈیا کو گودی میڈیا قرار دیا جارہا ہے ۔ سرکاری سطح پر ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کے جمہوری حقوق کو پامال کیا جارہا ہے، یہ بات اب نہ تو ڈھکی چھپی ہے نہ ہی یہ کوئی راز ہے اور اگر یہ صورت حال ہو تو ایک عام آدمی کیسے جشن جمہوریہ منا سکتا ہے اور یہ جو جشن جمہوریہ منایا جارہا ہے، کیا اس کا تعلق دل سے ہے ؟ اس ملک کے منظرنامے میں ہم جگہ جگہ جمہوریت کی پامالی کے نشانات دیکھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم محض یہ سب تماشائی بنے دیکھتے رہیں گے ؟ کیا ہم اپنے دستوری اور جمہوری حق سے بہ آسانی دستبردار ہوجائیں گے ؟ آج جب کہ ہم یوم جمہوریہ منارہے ہیں، وقت کا تقاضا ہے کہ ہم جمہوریت کے حقیقی معنوں سے دیگر لوگوں کو واقف کرائیں، انھیں دستور کی جانب سے دیے گئے ان حقوق کے بارے میں بتائیں جنھیں آج طاقت کے بل پر دبایا جارہا ہے یہ بھی ہے کہ آج ایسی دستوری و جمہوری کوششوں پر بھی قدغن لگانے کی کوششیں ہورہی ہیں تاہم ہمیں کوشش کرتے رہنے کی ضرورت ہے ۔

a3w
a3w