یوروپ کو اسرائیل اور حماس میں سے کسی ایک کو چُننا ہوگا: تل ابیب
فلسطینی ریاست کی حمایت پر اسرائیل نے فرانس اور دیگر یوروپی ممالک کو وارننگ دے دی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے سوشل میڈیا پر جاری پیام میں کہا کہ حماس نے اسرائیل پر پابندی کے لیے کابینہ کی حمایت نہ ملنے پر مستعفی ہونے والے ڈچ وزیرخارجہ کی تعریف کی۔
تل ابیب: فلسطینی ریاست کی حمایت پر اسرائیل نے فرانس اور دیگر یوروپی ممالک کو وارننگ دے دی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے سوشل میڈیا پر جاری پیام میں کہا کہ حماس نے اسرائیل پر پابندی کے لیے کابینہ کی حمایت نہ ملنے پر مستعفی ہونے والے ڈچ وزیرخارجہ کی تعریف کی۔
انہوں نے لکھاکہ حماس نے فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر فرانسیسی صدر اور دیگر کی بھی تعریف کی تھی۔ اسرائیلی وزیرخارجہ کاکہنا تھا کہ اب یوروپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہے یا حماس کے ساتھ کیونکہ اسرائیل کے خلاف ہونے والے تمام اقدامات مشرقِ وسطیٰ میں جہادی اتحاد کے مفاد میں جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ 2 روز قبل نیدر لینڈس کے وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ نے غزہ میں اسرائیلی فوجی حملہ کے خلاف اضافی پابندیوں کے لیے کابینہ کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیاتھا۔ استعفیٰ سے متعلق دیئے گئے بیان میں کیسپر نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ غزہ کی سرزمین پر کیا ہو رہا ہے۔
ایک کابینہ کے طور پر ہم نے پہلے بھی کئی اقدامات کیے ہیں۔ نیدرلینڈس کے پاس شرمندہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں اضافی اقدامات کرنے کے حوالہ سے میں نے کابینہ میں کئی بار مزاحمت محسوس کی۔ فرانس نے بھی گزشتہ ماہ مشرقِ وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
فرانسیسی صدر کاکہنا تھاکہ وہ فلسطینی ریاست قبول کرنے کا باقاعدہ اعلان ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کریں گے۔اسی دوران سابق اسرائیلی وزیرِاعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا رہے وہ جنگی جرم ہے۔ عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود المرٹ نے کہا کہ مارچ 2025ء کے جنگ بندی معاہدہ کے بعد اب غزہ کی جنگ ایک غیر قانونی جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس غیرقانونی جنگ کو 70 فیصد اسرائیلیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ایہود المرٹ 2006ء سے 2009ء تک اسرائیل کے وزیرِاعظم رہے۔ انہوں نے اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی جنگ کا دفاع کرتے ہوئے کہاکہ بے شک اس وقت جنگ جائز تھی کیونکہ وہ حماس کا اقدام تھا لیکن مارچ 2025ء میں سیزفائر معاہدہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ غیر قانونی ہے اور اسرائیل کے لیے ایک پھندہ ہے۔
اس جنگ میں بہت سے اسرائیلی فوجی مارے جارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں موجودہ اسرائیلی حکومت پر جنگی جرائم کا الزام لگاؤں گا۔۔ سابق اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بیشتر اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ یہ اس وقت نتن یاہو صرف اپنے فائدہ کا سوچ رہے ہیں۔
انہیں یرغمالیوں کے خاندانوں‘ قومی سلامتی اور اسرائیلی معاشرہ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ ایک بڑی آبادی ہے جہاں 10 لاکھ سے زائد لوگ ہیں جہاں حماس درمیان میں موجود ہے وہاں جنگ کرنا اسرائیلی کے لیے موت کا پھندہ ہے اور یہ جنگ ایسی ہے جس سے کوئی قومی خدمت نہیں ہوگی۔ اولمرٹ نے اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور وزیرِخزانہ بذلیل اسموٹرچ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہا پسند ہیں۔