مذہب

شر میں بھی خیر ہوتا ہے!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت کے بعد ۱۳؍ سال مکہ میں رہے، اس پوری مدت میں آپ کو بھی اور آپ کے جاںنثاروں کو بھی سخت اذیتیں پہنچائی گئیں، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو شہید کر دئیے گئے، بعض کو ایسی تکلیفیں دی گئیں جو موت سے کم نہیں تھیں، خور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت کے بعد ۱۳؍ سال مکہ میں رہے، اس پوری مدت میں آپ کو بھی اور آپ کے جاںنثاروں کو بھی سخت اذیتیں پہنچائی گئیں، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو شہید کر دئیے گئے، بعض کو ایسی تکلیفیں دی گئیں جو موت سے کم نہیں تھیں، خور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، جب لوگوں کی جان کے لالے پڑ گئے تو اللہ کے حکم سے مردان حق کے اس چھوٹے موٹے قافلہ نے مدینہ منورہ ہجرت کی اور مدینہ کے لوگوں نے کچھ اس طرح محبت کے پھول نچھاور کئے کہ نفرت کے جو کانٹے مشرکین مکہ کی طرف سے چبھوئے گئے تھے، ان کا درد کم ہونے لگا اور صحابہ نے کسی درجہ میں سکون کی سانس لی؛ اگرچہ خطرات کے بادل یہاں بھی منڈلاتے تھے اور اہل مکہ کی طرف سے بار بار حملے بھی ہو رہے تھے؛ لیکن ویسے تکلیف دہ حالات نہیں تھے، جن سے وہ مکی زندگی کے ۱۳؍ سالہ عرصہ میں گزرے تھے۔

مدینہ میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کے فرض ہونے کا اعلان ہوا تو فطری طور پر صحابہ کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی ہوگی کہ ابھی تو سکون کی سانس لینے کا موقع ملا ہے، کاش ابھی فوراََ جہاد کا حکم نہیں ہوتا، اس پس منظر میں حکم جہاد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک اصولی ہدایت ارشاد فرمایا کہ دشوار حالات میں مسلمانوں کے لئے صبرواستقامت کا سامان مہیا فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: عسیٰ أن تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسیٰ أن تحبوا شیئا وھو شر لکم (بقرہ: ۲۱۶)

ہو سکتا ہے کہ تم ایک بات کو ناپسند کرو اور اسی میں تمہاری بھلائی ہو، اور ممکن ہے کہ تم ایک بات کو پسند کرو؛ لیکن وہ تمہارے لئے بہتر نہ ہو۔

یہ ارشاد ربانی ٹوٹے ہوئے دلوں کے لئے سہارا، ناامیدی کی شب تاریک میں امید کا چراغ اور ناکامیوں ومحرومیوں کے ماحول میں حوصلہ مندی کا پیغام ہے، قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کرام کی دعوتی جدوجہد کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کے ضمن میں اسلام میں آنے والے نشیب وفراز کا بھی خاص طور پر ذکر آیا ہے، وہ کیسے مشکل حالات سے گزرے، کیسی کیسی سخت آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے اور آزمائش کی بھٹیوں میں تپنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسی عزت اور سرفرازی عطا فرمائی، یہ پوری داستان عبرت قرآن مجید میں موجود ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام دعوت حق کی پاداش میں اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور ہوئے، عراق سے روانہ ہوتے ہوئے سوائے ان کی زوجہ مطہرہ حضرت سارہ علیہا السلام کے کوئی اور ان کے ساتھ نہیں تھا، پھر مصر میں ایک بڑی ابتلاء سے گزرے، جب عزت وآبرو بھی خطرہ میں تھی؛ لیکن آزمائش کی اس گھاٹی سے بھی اس شان سے پار ہوئے کہ مصر کے بادشاہ نے اپنی شہزادی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نکاح میں دے دیا، جن کے لئے عراق کی وسیع اور سر سبز وشاداب سرزمین میں رہنے کی جگہ نہیں نکل سکی ، ان کی اولاد پوری دنیا پر حکومت کر رہی ہے اور دنیا کے تین بڑے مذاہب کو ماننے والے- مسلمان، عیسائی اور یہودی- حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے نام لیوا ہیں اور مسلمان تو شب وروز کی کم سے کم پانچوں فرض نمازوں میں اپنے پیغمبر کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود و سلام بھیجتے ہیں، حضرت یوسف علیہ السلام جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’کریم ابن کریم ابن کریم‘‘ کہا ہے، یعنی وہ خود نبی ان کے والد نبی اور ان کے دادا نبی؛ لیکن انہیں مصر کے ایک ویران کنویں میں پھینک دیا گیا اور جب کسی طرح وہاں سے نکالے گئے اور مصر پہنچے تو پھر مصر کے قید خانہ میں مدتوں رہنا پڑا؛ مگر بالآخر بادشاہ مصر کے اس زر خرید غلام اور جیل کے قیدی کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عزت دی کہ پورا مصر اُن کے اقتدار میں آگیا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی صرف موسیٰ ہونے کے شبہ میں ان کے خاندان کے سیکڑوں نومولود تہہ تیغ کر دئیے گئے، پھر حضرت موسیٰ کی پرورش بھی اس طرح ہوئی کہ انہیں دریا میں پھینک دیا گیا، مگر اللہ کی قدرت دیکھئے کہ دریا برد کئے جانے والے اس نومولود کی قصر شاہی میں پرورش ہوئی، پھر جب نبوت سے سرفراز کئے گئے اور دعوت حق پیش کرنے کے لئے وقت کے سب سے طاقت ور اور ظالم وجابر حکمراں کا سامنا کیا اور بالآخر انہیں مصر چھوڑنا پڑا تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے تحت مصر میں آباد سرکش قوم اپنے قائد کے ساتھ دریا برد کر دی گئی، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام دعوت حق کا چراغ لے کر فلسطین پہنچے اور ان کے متبعین نے بیت المقدس کو فتح کیا، حضرت عیسی علیہ السلام عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق پھانسی کے پھندے پر چڑھا دئیے گئے؛ لیکن آج دنیا پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام لیواؤں کا تسلط ہے، اگرچہ انھوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقی تعلیمات کو فراموش کر دیا ہے؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قوم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام تک کی حقیقی تعلیمات پر کاربند ہے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والی امت ہے۔

یہی اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ راہ حق پر قائم رہنے والوں کو آزمائشوں سے گزارا ضرور جاتا ہے؛ لیکن پھر انہیں دنیا میں بھی عزت، طاقت، نیک نامی اور کامیابی سے نوازا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اس کی بہترین مثال ہے، سیرت میں کئی واقعات ایسے ملتے ہیں، جو بظاہر مسلمانوں کے لئے بہت حوصلہ شکن تھے، جب آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو یہ کوئی کم تکلیف دہ واقعہ نہیں تھا، آپ نے گھر بار چھوڑا، زمین جائداد چھوڑی، رشتہ داروں کو چھوڑا، بیت اللہ شریف کی قربت چھوڑی، اس فضا کو چھوڑا جس میں آپ نے بچپن سے ادھیڑ عمر تک زندگی گزاری تھی، آپ پر اس کا بڑا اثر تھا، جب آپ مکہ مکرمہ سے نکلے تو آپ نے اپنے اس مانوس اور مبارک شہر پر نگاہ حسرت ڈالی اور فرمایا:

’’اے مکہ! تو مجھے بہت عزیز ہے؛ لیکن تیرے باشندہ نے مجھے یہاں رہنے نہیں دیا‘‘ ما اطیبک من بلد، وأحبک الیّ ، ولو لا ان قومی أخرجونی منک ما سکنت غیرک (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۳۹۲۶) جب آپ مدینہ کے قریب پہنچے، جہاں سے ایک راستہ مکہ کی طرف جاتا تھا تو پھر وطن کی جدائی اور محرومی کا غم تازہ ہوگیا، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا کہ آپ گھبرائیں نہیں، ہم آپ کو پھر مکہ کی طرف واپس لائیں گے (قصص:۸۵) مدینہ پہنچنے کے بعد صحابہ کو وہاں کی آب وہوا راس نہیں آتی تھی، ان پر مدہوشی کی کیفیت طاری ہوتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مدینہ کو رحمت وبرکت کا شہر بنا دے اور اُن کا دل یہاں لگ جائے (بخاری، حدیث نمبر: ۳۹۶۲) لیکن اپنے وطن کو خیرآباد کہنے کے پیچھے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی کامیابی رکھی تھی! بدر واُحد اور خندق کا معرکہ ہو یا فتح مکہ اور پورے جزیرۃ العرب کا اسلام کے دامن میں آنا، یہ ساری کامیابیاں ہجرت کے واقعہ میں پوشیدہ تھیں۔

اس میں مسلمانوں کے لئے ایک اہم سبق ہے، اور وہ سبق ہے مشکل اور ناپسندیدہ حالات میں حوصلوں کو قائم رکھنا، اپنے آپ کو ثابت قدم رکھنا، مایوسی اور ناامیدی سے بچنا، ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ جب رات کی تاریکی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو پھر صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے، انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ مشکلات میں خیر کے پہلو کو تلاش کرے؛ کیوں کہ ہر شر کے اندر کہیں نہ کہیں خیر بھی چھپا ہوتا ہے، ۱۸۵۷ء میں ہمارے ملک پر انگریزوں کا قبضہ ہوا، یہ اس ملک کے لئے اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے بہت بڑا حادثہ تھا؛ لیکن اسی کے بعد ملک کے طول وعرض میں مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع ہو اور آج ہندوستان میں دینی مدارس، مکاتب اور جامعات کی جو کثرت ہے، شاید اس کی کہیں اور مثال نہ ملے، ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد شہید کی گئی، ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت ہی تکلیف دوہ واقعہ تھا؛ لیکن اس کے بعد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی اور لوگوں نے محسوس کیا کہ تعلیم کے بغیر اس ملک میں ایک باعزت قوم کی حیثیت سے وہ زندگی نہیں گزارسکیں گے، اسی کے ساتھ ساتھ گاؤں گاؤں مسجدیں تعمیر کرنے کا جذبہ پروان چڑھا، اگر ان مسجدوں کو شمار کیا جائے جو ۱۹۴۷ء سے ۱۹۹۲ء کے درمیان تعمیر ہوئی ہیں اور ان مسجدوں کو جو ۱۹۹۲ء کے بعد تعمیر ہوئی ہیں تو واضح فرق محسوس ہوگا، یہ حقیر ذاتی طور پر اس بات سے واقف ہے کہ سیکڑوں دیہات جہاں مسلمان اذان کی آواز سننے کو تڑپتے تھے، آج وہاں مسجدیں تعمیر ہو گئی ہیں، اور مسجدوں کی برکت سے مسلمان نوجوانوں میں نماز ادا کرنے کا جذبہ بھی بڑھا ہے، ہندوستان کے کئی شہروں میں بھیانک فساد ہوئے، مسلمانوں کو جانی نقصانات بھی پہنچائے گئے اور مالی نقصانات بھی، مرادآباد، جمشید پور، بھاگلپور، سورت، احمد آباد وغیرہ، الحمدللہ وہاں مسلمان شعور اور ہمت کے ساتھ اٹھے ، اب وہاں کاروبار میں مسلمانوں کی حصہ داری پہلے سے زیادہ ہے، ان کی اپنی کالونیاں ہیں، تعلیمی ادارے ہیں اور وہ پہلے سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں، حیدرآباد میں ۱۹۴۸ء میں پولیس ایکشن ہوا، حیدرآباد اسٹیٹ کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، ان کے مکانات اور دکانیں لوٹ لی گئیں، عورتیں اپنی آبرو بچانے کے لئے کنووں میں کود کر جان دینے پر مجبور ہوئیں، ایسا لگتا تھا کہ اب یہاں کا مسلمان اس خطہ میں عزت ووقار کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزار سکے گا؛ لیکن حیدرآباد اور حیدرآباد سے ملحق سابق مسلم علاقوں نے ایک نئی کروٹ لی، عصری تعلیم کے ادارے، دینی مدارس، مساجد ، ہسپتال، خدمت خلق کے کام ہر پہلو سے انھوں نے ترقی کا تیز رفتار سفر کیا ہے اور آج وہ ان چند شہروں میں ہے، جن کی مثال پیش کی جاتی ہے، ان سب کی تاریخ یہی ہے کہ وہ آزمائش سے گزرے ؛ مگر اللہ پر بھروسہ کیا، حالات کا تجزیہ کیا، اپنی صلاحیت کو پہنچانا ، ایک منصوبہ کے ساتھ قدم اٹھایا اور آگے بڑھے اور آئندہ بھی انشاء اللہ بڑھتے رہیں گے۔

اس وقت ملک میں حجاب کا مسئلہ چھڑا ہوا ہے، مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس میں آنے سے منع کیا جاتا ہے، اس وقت فرقہ پرست عناصر کی طرف سے غیر مسلم نوجوانوں کو دعوت دی جارہی ہے کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو پھانس کر لائیں اور ان سے نکاح کریں، اس وقت عدالتوں میں قانون شریعت کے خلاف مقدمات کا ایک انبار ہے اور بعض نام نہاد مسلمانوں کو عدالت سے رجوع کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، یہ اور اس طرح کے واقعات میں بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم خیر کا پہلو تلاش کریں، تحریک چلائیں کہ زیادہ سے زیادہ مسلم گرلس اسکول قائم ہوں اور ان میں مسلمان لڑکیاں اپنے تشخص کے ساتھ تعلیم حاصل کریں، جو مخلوط تعلیمی ادارے مسلمان انتظامیہ کے تحت چل رہے ہیں، ان میں بھی گرلس سیکشن بنا دیا جائے اور جداگانہ تعلیم ہو، اس کا دوہرا فائدہ ہوگا، ایک یہ کہ لڑکیاں حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں گی، دوسرے مسلمان لڑکیوں کو غیر مسلم لڑکوں کے دام فریب میں جانے کے واقعات بھی کم ہو جائیں گے، اسی طرح مسلمانوں میں گاؤں گاؤں ، محلہ محلہ تحریک چلائی جائے کہ وہ اپنے مقدمات کو کورٹ میں لے جانے کی بجائے دارالقضاء لے جائیں اور علماء سے اپنے مسائل حل کرائیں؛ کیوں کہ عدالتی کشا کش کی نوبت اس وقت آتی ہے، جب مسلمان خود اپنا مقدمہ کورٹ میں لے جاتا ہے، اگر مسلمان ایسی تحریک چلانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ شر سے پیدا ہونے والا خیر ہوگا اور یہ ان شاء اللہ مشکلات کا مستقل حل ثابت ہوگا۔
٭٭٭