موسیٰ ندی پراجیکٹ پر کانگریس حکومت کی دھوکہ دہی کا پردہ فاش
بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل، کے کویتا نے موسیٰ ندی کے خوبصورت بنانے کے پروجیکٹ پر حکومت کے متضاد بیانات اور جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے اور کانگریس حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔
حیدرآباد: بی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل، کے کویتا نے موسیٰ ندی کے خوبصورت بنانے کے پروجیکٹ پر حکومت کے متضاد بیانات اور جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے اور کانگریس حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ عوام، مقننہ اور کلیدی اسٹیک ہولڈرز کو پروجیکٹ کی نوعیت، فنڈنگ اور پیش رفت کے بارے میں گمراہ کر رہی ہے۔
کویتاکا کہنا تھا کہ کانگریس حکومت نے 19 ستمبر 2024 کو ورلڈ بینک کو ایک تجویز پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ تفصیلی پروجیکٹ رپورٹس (DPRs) تیار ہیں۔ لیکن 4 اکتوبر کو حکومت نے ڈی پی آر کی تیاری کے لئے مین ہارڈٹ کنسلٹنسیز، کشمین اینڈ ویک فیلڈ انڈیا اور RIOS ڈیزائن اسٹوڈیوز پر مشتمل کنسورشیم کو 160 کروڑ روپے مختص کرنے کے لئے ایک جی او جاری کیا تھا۔ لیکن 17 دسمبر کو تلنگانہ اسمبلی میں حکومت نے متضاد بیان دیا اور کسی بھی ڈی پی آر کی موجودگی سے صاف انکار کردیا۔
کویتاکا سوال تھا کہ "کانگریس حکومت تلنگانہ کے عوام کو کیوں دھوکہ دے رہی ہے؟ پروجیکٹ اور اس کی فنڈنگ کے بارے میں یہ رازداری کیوں رکھی جارہی ہے؟” انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ہر مرحلے پر غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔ اسمبلی میں حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ کوئی ڈی پی آر موجود نہیں ہے، لیکن ورلڈ بینک کو باضابطہ مواصلات میں اس کے برعکس کچھ اور ہی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
کویتاکا کہنا تھا کہ حکومت نے موسیٰ ندی کے فرنٹ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے نام پر ورلڈ بینک سے 4,100 کروڑ روپے قرض حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ عوامی فورمز پر اسے تزئین نو کے پروجیکٹ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
بی آر ایس کی رکن کونسل نے بجٹ میں ایک فیصد بھی رقم مختص کیے بغیر گنگا ندی کی صفائی کے پروجیکٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے 1.5 لاکھ کروڑ روپے کے تخمینی لاگتی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے پر چیف منسٹر ریونت ریڈی پر تنقید کی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس پروجیکٹ کا مقصد عوامی فلاح و بہبود یا ماحولیاتی بحالی کے بجائے تجارتی منصوبوں بشمول مالز اور ریئل اسٹیٹ پروجیکٹس کے لئے راستہ ہموار کرنا ہے، جس کے لئے موسیٰ ندی کے کنارے مقیم 16,000 خاندانوں کو بے گھر کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
کویتاکا کہنا تھا کہ بی آر ایس کے 10 سالہ دور حکومت میں تلنگانہ کے وقار اور وسائل کو بچاتے ہوئے کبھی بھی عالمی بینک سے قرض نہیں لیا گیا، لیکن کانگریس حکومت نے ایک سال کے اندر ہی ریاست کے مستقبل کو غیر ملکی اداروں کے حوالے کرنے کے لئے تیار کر لیا ہے۔ "کانگریس حکومت آخر کس کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے؟ عوام یا بڑے ریئل اسٹیٹ کاروباریوں کے مفادات؟” کویتا نے سوال کیا۔
کویتاکا نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ کانگریس حکومت نے اس پروجیکٹ کے لئے 14,000 کروڑ روپے کی منظوری کے لئے مرکز کو ایک علیحدہ تجویز پیش کی تھی، جس سے حکومت کے دوہرے معیار اور تضاد کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
انہوں نے حکومت پر بے گھر خاندانوں کی فلاح و بہبود کے بجائے تجارتی مفادات کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا اور دریا کے 55 کلومیٹر کے حصے میں زمین کے حصول کے معاملے میں وضاحت کا مطالبہ کیا۔ کویتا نے حکومت سے فوری عوامی مشاورت اور شفافیت کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر حکومت نے ڈی پی آر اور فنڈنگ کی تفصیلات کو عوامی طور پر ظاہر نہ کیا تو اسمبلی میں پریولیج موشن پیش کیا جائے گا۔
کویتاکا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ جواب دینا چاہیے کہ مقننہ، مرکز، عالمی بینک اور تلنگانہ کے عوام کو متضاد بیانات کیوں دی جا رہی ہیں؟ عوامی فلاح و بہبود کے خلاف کس کے مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے؟ آخر میں، کے کویتا نے یہ عہد کیا کہ بی آر ایس موسیٰ ندی کے کنارے مقیم عوام کے ساتھ کھڑی رہے گی اور بغیر مناسب معاوضہ کے انہیں بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف بھرپور لڑائی لڑے گی۔ انہوں نے کانگریس حکومت پر تلنگانہ کے شہریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ یہ ترقی نہیں بلکہ دھوکہ دہی ہے۔ "ہم کانگریس حکومت کو حیدرآباد کے مستقبل یا اس کے عوام کے حقوق کو رہن رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔”