مضامین

مصر کی میٹروٹرین میں پہلی مرتبہ خواتین ڈرائیور

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں1987ء میں بننے والی میٹروٹرین عرب دنیاکی پہلی میٹروسروس تھی لیکن 35سال میں پہلی مرتبہ ان میں خواتین ٹرین ڈرائیور زبھرتی کی جارہی ہیں۔

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں1987ء میں بننے والی میٹروٹرین عرب دنیاکی پہلی میٹروسروس تھی لیکن 35سال میں پہلی مرتبہ ان میں خواتین ٹرین ڈرائیور زبھرتی کی جارہی ہیں۔ قاہرہ میٹروٹرین اب لگ بھگ دوکروڑآبادی کوخدمات پیش کرتی ہے، انتظامیہ نے خواتین کو پہلی مرتبہ بطور ڈرائیور بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں بالکل نیاعمل ہے جہاں محض کچھ خواتین کے پاس پیشہ ورملازمتیں ہیں۔ پہلی دو خواتین ڈرائیوروں کے مطابق رواں سال اپریل سے مسافر انہیں ٹرین ڈرائیور کے کیبن کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے دیکھ کرمختلف ردعمل دے رہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ کی بھنویں اوپر چلی جاتی ہیں توکچھ سرے سے نامنظور کردیتے ہیں۔

قاہرہ میٹروٹرین میں بھی خواتین کے لیے مخصوص ڈبے موجود ہیں جوچاہتی ہیں کہ و ہ مردوں کے ساتھ سفرنہ کریں تاکہ انہیں جنسی طورپر ہراساں نہ کیا جائے۔ بزنس گریجویٹ خاتون ڈرائیور ہند عمرکہتی ہیں کہ ٹرین ڈرائیور بننے کی درخواست جمع کروانے کے لیے جلدی کرنی پڑی کیوں کہ وہ اس ملک میں پیشر وبننا چاہتی تھیں جہاں2020ء کے اعداد وشمارکے مطابق صرف 14.3فیصد خواتین ہی باقاعدہ پیشوں میں ملازمت کررہی ہیں۔ 30سالہ ہند عمرنے بتایا کہ روزانہ ہزاروں زندگیاں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ انہوں نے قاہرہ میٹروکے مارکے والی چمکیلی کوٹی فخر سے زیب تن کررکھی تھی اورسرپر کالے اورسفید رنگ کا اسکارف تھا۔ ہند عمر نے اعتراف کیاکہ وہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنے خاندان کی حمایت حاصل رہی۔ ’آغاز میں میرے والدین کوعجیب لگا لیکن بالآخر انہوں نے میری حمایت کی۔ میرے شوہر آغاز سے ہی پرجوش تھے اور انہوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی…‘‘

انہوں نے کہا کہ بنیادی عنصر خواتین ڈرائیوروں کو رات کی شفٹ سے چھوٹ دینا تھا۔ ہند عمر نے بتایا کہ ڈرائیوربننے کی خواتین امیدواروں کا امتحانی مرحلہ خاصا مشکل تھا جس میں امیدواروں سے ان کی ’توجہ کی مدت‘ اور’برداشت‘ کا مظاہرہ کرنے کو کہاگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرائیورز کو ہفتے میں چھ دن کام کے دوران‘ کئی گھنٹوں تک حددرجہ چوکنا رہنا پڑتا ہے۔‘

ہند عمر کے ساتھ ٹرین ڈرائیور کے لیے تربیتی پروگرام میںمنتخب ہونے والی دوسری32سالہ خاتون سوزانے، نے اس لمحے کویاد کیاجب پہلی مرتبہ مسافروں نے انہیں ڈرائیور کے کیبن میں دیکھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’’میں سمجھ سکتی تھی کہ وہ حیران تھے ایک ایسے ملک میں ہونے کے ناتے جہاں خواتین کو بہت سے شعبوں میں محدود رسائی دی جاتی ہے۔ کچھ مسافرخوف زدہ تھے۔ انہیں میری صلاحیتوں پرشک تھا اور کہتے تھے کہ وہ خود کومحفوظ نہیں سمجھتے جب کنٹرول ایک خاتون کے پاس ہو۔‘‘

1987ء میں خدمات کا آغاز کرنے والی قاہرہ میٹروٹرین عرب دنیا کی سب سے پرانی میٹروسروس ہے لیکن خواتین کوملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں یہ دیگر عرب ممالک سے پیچھے رہ گئی۔ 1999ء میں مراکش کی سعدیہ عبدعرب دنیا کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور بنی تھیں۔ سعودی عرب میں بھی جہاں کچھ عرصہ قبل تک خواتین کے گاڑی چلانے پرپابندی تھی لیکن خواتین ٹرین ڈرائیورز کا پہلا گروپ تربیت کے مراحل میں ہے ۔ قاہرہ میٹروٹرین تین مزید پٹریاں بچھانے اورمصرکا پہلا مونوریل نظام بننے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس لیے ہندعمر کو امید ہے کہ ان کی مثال ’دیگر خواتین کے لیے راہ ہموار کرے گی‘ کہ وہ ٹرین ڈرائیورزبن سکیں اور ’ہم جیسے بہت سی خواتین یہاں ہوں گی‘۔
٭٭٭