دہلی

گینگسٹر بشنوئی کا انٹرویو، سپریم کورٹ سے ٹی وی رپورٹر کو راحت

سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک نجی ٹی وی چینل اور اس کے صحافی کو جیل میں بند گینگسٹر لارنس بشنوئی کا انٹرویو لینے کے معاملے میں کوئی تعزیری کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے راحت دی ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک نجی ٹی وی چینل اور اس کے صحافی کو جیل میں بند گینگسٹر لارنس بشنوئی کا انٹرویو لینے کے معاملے میں کوئی تعزیری کارروائی نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے راحت دی ہے۔

متعلقہ خبریں
بھیڑ بکریوں کی تقسیم اسکیم، سابق وزیر کے او ایس ڈی گرفتار
کودنڈا رام اور عامر علی خان کے حلف لینے پر امتناع میں توسیع
سپریم کورٹ نے کولکتہ واقعہ کا لیا از خود نوٹس، جلد ہوگی معاملہ کی سماعت
کرشنا جنم بھومی۔شاہی مسجد تنازعہ کی سماعت ملتوی
کانوڑ یاترا، سپریم كورٹ كی عبوری روک میں توسیع

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاڑدی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے اے بی پی نیوز نیٹ ورک کی طرف سے دائر درخواست پر کہا کہ ہو سکتا ہے کہ صحافی نے جیل مینوئل کی خلاف ورزی کی ہو، لیکن یہ ایک سنگین معاملہ ہے کہ یہ (انٹرویو) جیل میں کیا جا سکتا ہے۔

بنچ نے ٹی وی چینل کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ متعلقہ صحافی کو اگلے حکم تک گرفتار نہیں کیا جانا چاہئے تاہم عدالت نے صحافی کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملہ میں ایس آئی ٹی کی طرف سے کی جا رہی تحقیقات میں تعاون کریں اور متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کیا۔

روہتگی نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے حکم کی صداقت پر سوال اٹھایا جس نے ٹی وی چینل کے ذریعہ کئے گئے انٹرویو کو جانچ کے دائرہ میں لایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے دستور کے آرٹیکل 19(1) اے کے تحت دی گئی آزادی اظہار پر منفی اثر پڑے گا۔ان کا کہنا تھا کہ "یہ تحقیقاتی صحافت ہے اور کچھ نہیں۔ صحافی کو معلوم تھا کہ جیل کے اندر فون آسانی سے دستیاب ہیں اس نے انٹرویو کے لیے اپنے ذرائع استعمال کیے۔

بنچ کے سامنے دلائل پیش کرتے ہوئے سینئر وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ اس معاملہ پر غور کر رہا ہے کہ ایسے قیدیوں کو ایسی سہولتیں کیسے ملتی ہیں۔ کسی نے انٹرویو کی طرف توجہ مبذول کروائی تو اس (عدالت) نے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

بنچ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ جیل میں داخل ہوئے اور ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا، آپ نے کس کی اجازت لی؟ ہم دستور کے آرٹیکل 19(1) اے کے وسیع تر نقطہ نظر کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ قیدی کی (انٹرویو پر) پابندیاں ہیں۔وکیل نے کہا کہ اگر اس معاملہ کی تحقیقات کرنی ہے تو اسے سی بی آئی کے حوالہ کیا جائے۔

انہوں نے سوال کیا کہ پنجاب پولیس اس معاملہ کی تحقیقات کیسے کر سکتی ہے۔ روہتگی نے کہا کہ صحافی کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2 انٹرویوز ہوئے ہیں، ایک راجستھان جیل میں اور دوسرا پنجاب کی جیل میں ہوا۔

سپریم کورٹ نے 30 جولائی 2024 کو جیل میں بند بشنوئی کی درخواست پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا جس میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ سے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کرنے اور جیل میں رہتے ہوئے ٹی وی چینل کو ان کے انٹرویو دینے پر مقدمہ درج کرنے کو چیلنج کیا گیا۔

بشنوئی 2022 میں گلوکار سدھو موسے والا کے قتل کے ملزمین میں سے ایک ہے۔ مارچ 2023 میں ایک نجی نیوز چینل نے بشنوئی کے دو انٹرویوز نشر کیے تھے۔

دسمبر 2023 میں ہائی کورٹ نے بشنوئی کے انٹرویو کے معاملہ میں مقدمہ درج کرنے اور انڈین پولیس سروس عہدیدار پربودھ کمار کی سربراہی میں ایس آئی ٹی کے ذریعہ تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ہائی کورٹ نے جیل کے احاطہ میں قیدیوں کی طرف سے موبائل فون کے استعمال سے متعلق معاملہ میں از خود کارروائی کی تھی۔

a3w
a3w