کیرالا اسمبلی میں مخالفانہ قرار داد کی منظوری پر گری راج سنگھ کی تنقید
کیرالا اسمبلی میں ”ایک ملک، ایک الیکشن“کی تجویز کے خلاف قرار داد کی منظوری پر مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے آج ریاستی حکومت کو نشانہ تنقید بنایا ہے اور سوال کیا کہ انہیں اس تجویز پر کیا اعتراض ہے۔
پٹنہ (آئی اے این ایس) کیرالا اسمبلی میں ”ایک ملک، ایک الیکشن“کی تجویز کے خلاف قرار داد کی منظوری پر مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے آج ریاستی حکومت کو نشانہ تنقید بنایا ہے اور سوال کیا کہ انہیں اس تجویز پر کیا اعتراض ہے۔
متفقہ طور پر منظور کی گئی اِس قرار داد میں مرکز سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ملک میں بیک وقت انتخابات منعقد کرنے کی تجویز ترک کردے۔ چیف منسٹر پی وجین کا مزاج ناساز ہونے کے سبب وزیرپارلیمانی امور ایم بی راجیش نے ان کی جانب سے کیرالا اسمبلی میں یہ قرار داد پیش کی۔
راجیش نے قرار داد پیش کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر ایسی کوشش کامیاب ہوتی ہے تو یہ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچہ کو کمزور کردے گی اور ملک کی پارلیمانی جمہوریت پر سمجھوتہ ہوگا۔ انہوں نے اس تجویز کو غیرجمہوری اور غیردستوری قرار دیا۔
گری راج سنگھ نے آئی اے این ایس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملک، ایک الیکشن کا نفاذ ملک کے لئے بیحد اہم ہے۔ ایسا ہونا چاہئے ورنہ ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی اور یہ متاثر ہوگی۔ مرکزی وزیر نے سوال کیا کہ اگر حکومتیں انتخابات میں مصروف رہیں گی تو وہ ترقیاتی کام کب کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بار بار الیکشن ہوتے ہیں، اگر ایک ملک، ایک الیکشن کا طریقہ نافذ کیا جائے تو حکومت کو ترقیاتی پراجکٹس پر توجہ دینے کا وقت ملے گا۔ ہندوسوابھیمان یاترا کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج میں ان علاقوں سے آغاز کررہا ہوں جہاں ہندو حاشیہ پر آگئے ہیں۔
میں اس یاترا کا بھاگلپور سے آغاز کروں گا اور کٹیہار، کشن گنج اور ارڑیہ جاؤں گا، میں کسی برادری کے خلاف نہیں جارہا ہوں، بلکہ ہندوؤں کی تائید کرنے جارہا ہوں۔ گری راج سنگھ نے کہا ہے کہ وہ ہندو برادری سے متحد ہونے اور ذات پات کے خطوط پر منقسم نہ ہونے کی اپیل کرنے کے لئے یہ یاترا نکالنے والے ہیں۔ گری راج سنگھ نے الزام لگایا کہ راہول گاندھی جیسے بعض کانگریس قائدین ہندوؤں کو ذات پات کے خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں ہندوسوابھیمان یاترا شروع کروں گا جس کے ذریعہ ہندوؤں کو اِس بات سے واقف کراؤں گا کہ راہول گاندھی جیسے قائدین ذات پات کے نام پر ہندوؤں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بی جے پی لیڈر نے کہا کہ یہ قائدین مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ وہ اقلیتی رائے دہندوں سے متفقہ تائید حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ منقسم نہ ہوں ورنہ انہیں مظالم کا سامنا کرنا پڑے گا۔