حیدر قریشی کا مجلہ ”جدید ادب“، خانپور/جرمنی
مجلہ ”جدید ادب“ کا آغاز معروف ادیب، شاعر، نقاد اور محقق حیدر قریشی نے اکتوبر ۱۹۷۸ء میں جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل خان پور ضلع رحیم یار خان سے کیا۔بانی و مدیراعلیٰ حیدر قریشی ہی رہے۔ اُن ساتھ صفدر صدیق رضی ایک سال اعزازی مدیر رہے اور معاون مدیران میں فرحت نواز اور مبارکہ شوکت کے نام نظرآتے ہیں۔
مجلہ ”جدید ادب“ کا آغاز معروف ادیب، شاعر، نقاد اور محقق حیدر قریشی نے اکتوبر ۱۹۷۸ء میں جنوبی پنجاب کی ایک تحصیل خان پور ضلع رحیم یار خان سے کیا۔بانی و مدیراعلیٰ حیدر قریشی ہی رہے۔ اُن ساتھ صفدر صدیق رضی ایک سال اعزازی مدیر رہے اور معاون مدیران میں فرحت نواز اور مبارکہ شوکت کے نام نظرآتے ہیں۔
پہلے شمارے میں حیدر قریشی نے اپنے اداریہ بعنوان ”گفتگو“ میں رسالے کی اشاعت میں تعاون و حوصلہ افزائی کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور رسالے کے مقالات کے بارے میں لکھتے ہیں: ”ممتاز مفتی اور جناب ڈاکٹر سیّد عبداللہ کا بے حد ممنون و مشکور ہوں جن کی قیمتی نگارشات اس شمارے کی اہم خصوصیت ہیں، افسانوں کے معاملہ میں کچھ کمی سی محسوس کررہا ہوں لیکن شعری ادب کے بارے میں مَیں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ چند نئے لیکن اچھا کہنے والوں کے علاوہ بیشتر جدید شاعری میں اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں اور ان کی ایک نمائندہ حیثیت ہے۔“
اس رسالے میں تمام ادبی لوازمہ شائع کیا گیا۔ جس میں حمد و نعت، نظم و غزل، خاکے، ناولٹ، افسانے، ماہیے، گیت، انٹرویوز، خاکے، خطوط وغیرہ کے علاوہ تبصرہ کتب کو نمایاں جگہ دی جاتی۔ ”جدید ادب“ میں پاکستان، ہندوستان اور جرمنی کے علاوہ دیگر ممالک کے مصنّفین حضرات کی نگارشات بھی نمایاں انداز میں شائع ہوتی رہیں۔ اس رسالے میں قدیم ادیبوں، شاعروں اور دیگر مصنّفین کی تحریروں کے علاوہ نئے شعرا و مصنّف کا کلام اور نثری تحریریں بالالتزام شائع کرنے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
اس رسالے کا ادبی معیار بہت بلند ہونے کے باوجود بہت سے دیگر ادبی رسائل کے مشترکہ مسائل اس کو بھی درپیش ہوئے۔ جن کی وجہ باوجود چھ شماروں کی اشاعت کے بعد اس میں تعطل آگیا۔ چھٹا شمارہ ستمبر ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا۔ اُس کے بعد نومبر ۱۹۸۰ء میں جدید ادب پبلی کیشنز کے نام سے ضخیم شمارہ شائع ہوا جس میں پہلے چھ شماروں کے مقالات و نگارشات ”چھ اشاعتوں کا مجموعہ“ کے نام سے شائع کیا گیا، اس کو خاص نمبر بھی کہا جاسکتا ہے۔ اُس کے بعد تین شمارے ستمبر ۱۹۸۱ء کا ”شناخت“، فروری ۱۹۸۲ء کا ”احساس“ اور مارچ ۱۹۸۳ء کا شمارہ ”ادارک“ کے ناموں سے شائع کیا گیا جن میں بھرپور ادبی مواد قارئین کو پیش کیا گیا۔
مئی ۱۹۹۹ء میں ”جدید ادب“ کا نیا دور جسے ”دورِ دوم“ کہا جاسکتا ہے، شروع ہوا۔ مدیر حیدر قریشی اور مجلس ادارت و مشاورت میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ، احمد حسین مجاہد اور امین خیال شامل تھے۔ دورِ دوم کا یہ شمارہ اوّل جرمنی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد مئی ۲۰۰۰ء میں شمارہ دوم منظرعام پر آیا لیکن اُس کے بعد پھر باوجوہ یہ شمارہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
جولائی ۲۰۰۳ء سے اس رسالے کا تیسرا دور شروع ہوا جو کہ نہایت خوبصورت انداز کا باقاعدہ اشاعتی سلسلہ بنا۔ مدیر حیدر قریشی اس شمارے میں اپنے اداریے بعنوان ”گفتگو“ میں لکھتے ہیں: ”جدید ادب کا یہ تیسرا دور ہے۔ پہلا دور جب یہ پرچہ خانپور سے جاری ہوا اور آٹھ نو سال باقاعدگی اور بے قاعدگی کے ملے جلے انداز کے ساتھ چھپتا رہا۔ دوسرا دور جب جدید ادب جرمنی سے نکلنا شروع ہوا اور دو شماروں کے بعد بند کردیا گیا۔ اور اب یہ تیسرا دور جب یہ پھر جرمنی سے جاری کیا جارہاہے۔ اس بار اس کا ہر شمارہ کتابی صورت میں چھپنے کے ساتھ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہوگا۔“
تیسرے دور سے مجلہ ”جدید ادب“ نے ادبی مقالات و نگارشات کا بہترین انتخاب اپنے قارئین کو پیش کیا۔ دیگر ادبی تخلیقات و نگارشات کے علاوہ اس رسالے نے سجاد ظہیر اور میرا جی کے حوالے سے دو خاص نمبر بھی شائع کیے جن میں ان حضرات کی شخصیت وفن، افکار ونظریات اور تصنیفی خدمات کے علاوہ اُن کی تحریروں کا انتخاب بھی شامل اشاعت کیا گیا۔
اس رسالے میں جس طرح عمومی طور پر شخصی مقالات(خاکے، انٹرویو اور سوانحی مضامین) شائع کیے، مزید برآں بہت سی شخصیات پر خصوصی گوشے پیش کرکے اُن کو خراجِ تحسین پیش کیا اُن میں احمد حسین مجاہد، اکبر حمیدی، انور سدید، ترنم ریاض، جمیل جالبی، جوگندر پال، حسن عباس رضا، حمید سہروردی، حمایت علی شاعر، رضیہ حامد، سجاد ظہیر، سلطان جمیل نسیم، شکیب جلالی، ظہور احمد اعوان، عبداللہ جاوید، ممتاز مفتی، منظر حنفی، میرا جی، میرزا ادیب، ناصر احمد، ناصر عباس نیّر، وزیر آغا، ہمت رائے شرما…وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر کی مضحکہ خیزیاں، سرقہ اور جعل سازی کے حوالے سے گوشہ خاص شمارہ جنوری ۲۰۱۲ء میں شائع کیا گیا۔ مزید برآں رسالہ ”جدید ادب“ نے ادب میں سرقہ اور جعل سازی کے خلاف مؤثر کام کرتے ہوئے لگاتار مقالات شائع کیے۔
کتابوں پر تبصروں کے حوالے عام روش سے ہٹ کر اس رسالے ”کتاب گھر“ کے عنوان کے تین حصوں (تبصرے، کتاب میلہ اور تفصیلی مطالعہ) کے تحت قارئین کو روشناس کروایا۔ پہلے حصے میں حیدر قریشی کے تبصرے، دوسرے میں کسی اور شخصیت کے تبصروں کو جگہ دی جاتی، جب کہ تیسرے حصے میں کتاب کے بارے میں مختلف شخصیات کے لکھے ہوئے تفصیلی تعارف و جائزہ پیش کیا جاتا۔ اس رسالے نے جہاں پر شاعری کی تمام صنف پر گراں قدر تخلیقات شائع کیں، خاص طور پر ”اُردو ماہیا“ کے فروغ میں خاص کردار ادا کیا۔ عموماً ہر شمارے کے سرورق پر خوبصورتی خطاطی میں ایک ماہیا شائع کیا جاتا رہا۔ قارئین اور ادبی شخصیات کے مکتوبات کی باقاعدہ اشاعت کے علاوہ جدید خط و کتابت کا ذریعہ یعنی ”ای میل“ کو بھی شائع کرنے کا اہتمام کیا جاتا۔
مجلہ ”جدید ادب“ سفید کاغذ پر شائع کیا جاتا اور اس کے چار رنگہ سرورق پر خوبصورت تصویر کی اشاعت یا خطاطی حیدر قریشی کے خوبصورت ذوقِ جمال کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ مجلہ ”جدید ادب“ کے تین مختلف ادوار میں کل ۳۲ شمارے شائع ہوئے۔ جن میں تین خاص نمبر بھی شامل ہیں۔ کم از کم صفحات کی تعداد ۸۲ اور زیادہ سے زیادہ ۶۰۰ رہی۔ جب کہ تمام شماروں کے کل صفحات کی تعداد ۷۶۳۶ بنتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اس رسالے کے تینوں ادوار کا مکمل شمارہ وار، مصنف وار اور موضوع وار اشاریہ بھی راقم ترتیب دے رہا ہے جو کہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ جس اس رسالے کی بازیافت کے علاوہ اس سے استفادہ بھی آسان ہوگا۔ اور تمام مصنّفین کی تخلیقات و نگارشات ایک نظر میں سامنے آجائیں گی۔ ان شاء اللہ