نظام آباد "انکاؤنٹر” کی پول کھل گئی؟ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بڑا انکشاف — یہ انکاؤنٹر نہیں، کَسٹوڈیل ڈیتھ تھی!
یہ معاملہ اس وقت اور الجھ گیا جب آصف کو شبہ ہوا کہ ریاض پولیس کا “مخبر” بن چکا ہے۔ آصف کے گینگ نے ریاض کو مارنے کا منصوبہ بنایا، جبکہ پولیس نے بھی ریاض سے کہا کہ اگر وہ ایک لاکھ روپے دے تو وہ اس کی حفاظت کریں گے۔
حیدرآباد: نظام آباد انکاؤنٹر معاملہ اب سنگین رخ اختیار کر چکا ہے، کیونکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی نئی رپورٹ نے پولیس کے دعووں کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ کمیٹی نے اپنی تحقیقات میں انکشاف کیا ہے کہ راؤڈی شیٹر قرار دیے گئے ریاض کی ہلاکت کوئی انکاؤنٹر نہیں بلکہ "کسٹوڈیل ڈیتھ” تھی۔ رپورٹ کے مطابق پولیس نے یہ انکاؤنٹر دراصل فیک کرنسی اسکینڈل چھپانے کے لیے ایک ڈرامہ کے طور پر پیش کیا۔
مزید حیران کن بات یہ سامنے آئی ہے کہ جس کانسٹیبل پرمود کی موت کا الزام ریاض پر لگایا گیا تھا، کمیٹی نے واضح طور پر کہا کہ پرمود کو ریاض نے نہیں مارا۔
تحقیقات کے مطابق ریاض ایک پرائیویٹ فائننس کمپنی میں ریکوری ایجنٹ تھا۔ اپنی ڈیوٹی کے دوران اس نے آصف نامی شخص کی اسکوٹی ضبط کی، جس سے تین لاکھ روپے کی جعلی کرنسی برآمد ہوئی۔ ریاض نے یہ فیک نوٹس مختلف افراد میں بانٹ کر UPI کے ذریعے اصلی رقم حاصل کی اور اسے خرچ بھی کر ڈالا۔
بعد میں آصف نے ریاض کو سنگین دھمکیاں دیں کہ “پیسے اور گاڑی واپس کرو ورنہ خاندان کو نقصان پہنچاؤں گا۔” خوف زدہ ریاض نے پولیس کانسٹیبل پرمود سے مدد مانگی۔ پرمود نے اسے ایک سینئر افسر کے پاس لے جا کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہاں ایک لاکھ روپے رشوت کا مطالبہ سامنے آیا۔ ریاض کے انکار پر پولیس نے اسے استعمال کرتے ہوئے جعلی کرنسی ریکیٹ کو بے نقاب کرنے کا منصوبہ بنایا۔
یہ معاملہ اس وقت اور الجھ گیا جب آصف کو شبہ ہوا کہ ریاض پولیس کا “مخبر” بن چکا ہے۔ آصف کے گینگ نے ریاض کو مارنے کا منصوبہ بنایا، جبکہ پولیس نے بھی ریاض سے کہا کہ اگر وہ ایک لاکھ روپے دے تو وہ اس کی حفاظت کریں گے۔ اسی ہنگامے کے دوران ریاض کی موت ہوگئی— لیکن حقیقت انکاؤنٹر نہیں تھی۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ان انکشافات نے پورے پولیس سسٹم پر شدید سوال کھڑے کر دیے ہیں: کیا واقعی ایک فیک کرنسی اسکینڈل کو چھپانے کے لیے انکاؤنٹر کا یکطرفہ ڈرامہ رچایا گیا؟ کیا پولیس نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایک بے قصور نوجوان کی جان لی؟ یہ سوالات اب صرف ایک کیس تک محدود نہیں بلکہ پورے انکاؤنٹر کلچر پر سوالیہ نشان بن کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ معاملہ سنگین ہے—اور ریاستی سطح پر سخت تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔