حضرت علی ؓ کی تربیت آغوش نبوت ؐ اور درسگاہ رسالت ؐ میں ہوئی :مولانا ڈاکٹر محمد رضی الدین
حضرت علیؓ،نبی اکرمؐ کے مکہ سے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن مکہ میں رہے اور حضورنبی پاک ؐکی ہدایت کے مطابق لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کرکے اور لین دین کے معاملات سے فراغت حاصل کرکے تیسرے یا چوتھے دن عازم مدینہ منورہ ہوئے۔
حیدرآباد: امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ بنی ہاشم کے چشم و چراغ تھے۔ یہ خاندان حرم کعبہ کی خدمات، سقایہ زمزم کے انتظامات کی نگرانی اور حجاج کرام کے ساتھ تعاون و امداد کے لحاظ میں مکہ کا ممتاز خاندان تھا۔ علاوہ ازیں بنی ہاشم کو سب سے بڑا شرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے نصیب ہوا وہ نبی آخرالزمان، سرور عالم کی بعثت ہے جو دوسرے تمام اعزازات بلند تر ہے۔
ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر محمدرضی الدین رحمت حسامی (نائب خطیب جامع مسجد دارالشفاء)نے جامع مسجد دارالشفاء میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔مولانا نے کہا کہ بعض اقوال کے مطابق حضرت علیؓکی ولادت مکہ شریف میں عام الفیل کے سات سال بعد ہوئی۔ بعض سیرت نگار لکھتے ہیں کہ نبی اکرم کی ولادت کے تیس سال بعد حضرت علی ؓ پیدا ہوئے۔ حضورنبی اکرم ؐنے حضرت علیؓ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا۔
اس طرح حضرت علیؓکو رسول اکرم ؐکی آغوش محبت میں تعلیم و تربیت نصیب ہوئی۔ اس بنا ء پرحضرت علیؓابتدائی طور پر امورخیر کی طرف راغب اور بت پرستی جیسی جاہلانہ رسوم سے مجتنب رہتے تھے۔نوخیز لڑکوں میں سب سے پہلے نبی پاک ؐکے گھر میں تربیت پانے واے حضرت علیؓمشرف بہ اسلام ہوئے۔
حضور نبی کریم ؐنے اپنے تمام قریبی رشتہ داروں کو اپنے گھر میں جمع کرکے دعوت اسلام پیش کی تومو جود مرد اور خواتین سب خاموش رہے۔ حضرت علیؓ ان میں سب سے کم عمر تھے۔ انہوں نے اٹھ کر کہا کہ ”گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور مجھے آشوب چشم کا عارضہ ہے اور میری ٹانگیں دبلی پتلی ہیں تاہم میں آپ کا ساتھی اور دست و بازو بنوں گا۔
“حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”بیٹھ جاؤ‘ تو میرا بھائی اورمیرا وارث ہے۔“حضور نبی کریم ؐکی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے وقت حضرت علیؓکی عمر تیئیس سال تھی۔ سرور کائنات نے مشرکین مکہ کے محاصرے اور ان کے برے ارادوں کی اطلاع پا کر حضرت علی مرتضیؓ کو اپنے بستر پر استراحت کرنے کا حکم دیا اور مکہ کے لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی پاکؐ کے پاس رکھی گئی تھیں،ان کے مالکوں کے سپرد کردینے کی ہدایت فرمائی۔
اس شدید خطرے کی حالت میں حضرت علیؓ حضور نبی کریم ؐکے بستر پر سکون و اطمینان کے ساتھ محو خواب ہو گئے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے رہے کہ حضور نبی پاک ؐہی اپنے بستر پر موجود ہیں۔ وہ علی الصبح اپنے ناپاک ارادہ کی تکمیل کے لئے اندر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضور نبی کریمؐ کی جگہ آپکا ایک جاں نثار اپنے آقا پر قربان ہونے کے لئے موجود ہے۔
درآں حالیکہ حضور نبی کریم،حضرت ابوبکر صدیقؓکو ساتھ لے کر رات کے وقت ہی مدینہ منورہ جانے کے لئے نکل چکے تھے۔ مشرکین اپنی اس غفلت کی بنا پر ایک دوسرے پر برہم ہوتے رہے اور حضرت علیؓکو چھوڑ کر اپنے اصل مقصود کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔
حضرت علیؓ،نبی اکرمؐ کے مکہ سے تشریف لے جانے کے بعد دو یا تین دن مکہ میں رہے اور حضورنبی پاک ؐکی ہدایت کے مطابق لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کرکے اور لین دین کے معاملات سے فراغت حاصل کرکے تیسرے یا چوتھے دن عازم مدینہ منورہ ہوئے۔
شاہ ولی اللہ ؒنے اپنی کتاب ”ازالۃ الخفاء“میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓکے تقرب و اختصاص کی بناء پر خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپؓ کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے تھے۔ بعض موقعوں پر قرآن مجید کی آیتوں کی تفسیر بھی فرماتے تھے۔ چند مخصوص احادیث بھی قلمبند کرلی تھیں۔
غرض حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ابتداہی سے علم وفضل کے گہوارہ میں تربیت پائی تھی۔ اس لئے صحابہ کرام ؓمیں آپ (حضرت علیؓ)غیر معمولی تجربہ اور فضل و کمال کے مالک ہوئے۔حضرت علیؓنے بچپن ہی میں لکھنے پڑھنے کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔ چنانچہ اسلام لانے کے وقت اگرچہ آپؓکی عمر بہت کم تھی، تاہم آپ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔اسی لئے ابتداء ہی سے بعض دوسرے صحابہ ؓکی طرح حضرت علیؓبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحریر ی امور انجام دیتے تھے۔
چنانچہ کاتبان وحی میں حضرت علیؓکا نام بھی شامل ہے۔ نبی اکرم کی طرف سے بعض مکاتیب و فرامین حضرت علیؓکے دست مبارک سے لکھے ہوئے تھے۔ حدیبیہ کا صلح نامہ بھی حضرت علیؓ نے لکھا تھا۔ صلح نامہ کے شروع میں انہوں نے لکھا کہ یہ صلح نامہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مکہ کے قریش کے درمیان طے پایا ہے۔
اس پر قریش مکہ کے نمائندے نے اعتراض کیا کہ ہم تو محمدکو اللہ کا رسول نہیں مانتے تو حضور نبی کریم ؐنے حضرت علیؓسے فرمایا کہ آپ رسول اللہ کے الفاظ کاٹ دیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ان الفاظ کو میں تو اپنے ہاتھ سے نہیں مٹاسکتا(کیونکہ یہ حقیقت پر مبنی ہیں)اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے ان الفاظ کو کاٹ دیا۔اسلام کے علوم و معارف کا اصل سرچشمہ قرآن پاک ہے۔ حضر ت علیؓاس سرچشمہ سے پوری طرح سیراب ہوئے تھے۔
انہوں نے حضورنبی پاک ؐکی زندگی میں نہ صرف پورا قرآن زبانی یاد کرلیاتھا بلکہ اس کی ایک ایک آیت کے معنی اور شان نزول سے بھی واقف تھے۔ حضرت علیؓکا شمار مفسرین قرآن کے اعلیٰ طبقہ میں ہوتا ہے اور صحابہ کرامؓمیں حضرت ابن عباسؓکے سوا اس کمال میں حضرت علیؓکا کوئی شریک نہیں۔علم ناسخ و منسوخ میں بھی آپؓ کو کمال حاصل تھا۔اخیر میں مولانا نے دعاء پر اپنی تقریر کا اختتام کیا۔