دہلی

عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون پر اب خصوصی بینچ میں سماعت،امید افزاپیشرفت:مولانا ارشدمدنی

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اسے ایک امید افزاپیش رفت قراردیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ ہمیں یقین ہے کہ انصاف پھر سے سربلند ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 1991میں قانون سازی جس حالات میں ہوئی تھی وہ آج کے جیسے ہی حالات تھے۔

نئی دہلی: سنبھل سانحہ اور اجمیر درگا ہ پر ہندوؤں کے دعوے کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تعلق سے داخل پٹیشن پر 12 دسمبر کو دوپہر ساڑھے تین بجے چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی خصوصی بینچ سماعت کریگی۔

متعلقہ خبریں
پاکستانی زائرین نے درگاہ اجمیر میں چادر چڑھائی
تروملا کی وینکٹیشورا مندر میں سی جے آئی کی پوجا
11 ریاستوں کی جیلوں میں ذات پات کی بنیاد پر بھیدبھاؤ
بنگلہ دیش، طلبہ تحریک نے چیف جسٹس سمیت ججوں کو بھی استعفے دینے کا الٹی میٹم دے دیا
یوم ”میرا ووٹ میرا حق“ کے موقع پر چیف جسٹس آف انڈیا کا پیام

  یہ اطلاع آج یہاں جمعیۃعلماء ہند کی جاری ایک ریلیز میں دی گئی ہے ریلیز کے مطابق اس بینچ میں جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن ہونگے۔ گذشتہ سماعت پر وقت کی تنگی کی وجہ سے چیف جسٹس نے سماعت ملتوی کیے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔

واضح رہے کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے تحریر کردہ خط کی روشنی میں چیف جسٹس نے اس اہم مقدمہ کی سماعت خصوصی بینچ کے روبرو کیے جانے کا حکم جاری کیا ہے۔

عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی برقراری اور اس کے مؤثر نفاذ کے سلسلے میں سپریم کورٹ میں صدرجمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل پٹیشن پر سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن اور ورندا گروور بحث کریں گی۔ جمعیۃ کے وکلاء عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر بھی عدالت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے اسے ایک امید افزاپیش رفت قراردیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ ہمیں یقین ہے کہ انصاف پھر سے سربلند ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ 1991میں قانون سازی جس حالات میں ہوئی تھی وہ آج کے جیسے ہی حالات تھے۔

ہر طرف نفرت کی آگ لگائی جارہی تھی اورلوگوں کو قانون شکنی پر اکسایاجارہاتھا چنانچہ اس قانون کے ذریعہ منافرت کے اس دہانہ کو ہمیشہ کے لئے بند کردینے کی کوشش کی گئی تھی جو فرقہ پرست عناصرنے ملک کے امن وامان اتحاد اورآپسی بھائی چارہ کو آگ لگادینے کے لئے کھول دیا تھا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ 1991کے قانون کی موجودگی کے باوجود ایک بارپھر جھوٹ اورمنافرت کے اس دیہانہ کو کھول دیا گیا ہے اورمسلمانوں کی تمام اہم عبادت گاہوں خانقاہوں اوردرگاہوں پر مندرہونے کے دعویٰ کئے جارہے ہیں، یہ سوال اب غیر اہم ہوچکاکہ 1991کے قانون کی دانستہ خلاف ورزی کیوں کی جارہی ہے کیونکہ سوال توان سے کیا جاسکتاہے جو جواب دے یہاں تو سب کچھ آئین وقانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اکثریت کی زعم اورغرورمیں کیاجارہاہے۔

 انہوں نے مزیدکہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ عدالت نے معاملہ کی حساسیت اوراہمیت کو سمجھااورجمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کی درخواست پر سماعت کے لئے ایک خصوصی بینچ تشکیل دیدی جس کی سربراہی خودچیف جسٹس فرمائیں گے ہمیں امید ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ملک کے امن واتحاد اوریکجہتی کی ضمانت دینے والے اس قانون کی آئینی حیثیت کو نہ صرف برقراررکھاجائے گابلکہ اس قانون کے مؤثرنفاذ کے تعلق سے عدالت حکم بھی جاری کرے گی۔