غزہ میں بے گھر بچے مرغیوں کے پنجروں میں رہنے پر مجبور (ویڈیو)
فلسطین میں اسرائیلی بمباری سے بے گھر ہونے والے تقریباً دو ملین کے قریب لوگ کھلے آسمان تلے آچکے ہیں اور شدید سردی میں انہیں اپنی جان بچانے کے لئے کوئی مناسب جگہ میسر نہیں۔
غزہ : فلسطین میں اسرائیلی بمباری سے بے گھر ہونے والے تقریباً دو ملین کے قریب لوگ کھلے آسمان تلے آچکے ہیں اور شدید سردی میں انہیں اپنی جان بچانے کے لئے کوئی مناسب جگہ میسر نہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے فلسطینی خاندانوں کی تفصیلات آرہی ہیں جو بے گھر ہونے کے بعد ایک پولٹری فارم میں مرغیوں کے پنجروں کے اندر رہنے پر مجبور ہیں۔
اسرائیل کی بمباری کی وجہ سے غزہ کے 20 لاکھ باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر سرحدی شہر رفح میں محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں ہیں۔ پانچ خاندان ایک پولٹری فارم میں منتقل ہو گئے جو اس کی اونچی کنکریٹ کی دیواروں کے درمیان رہ رہے ہیں۔
انہوں نے بیٹری کے پنجروں کو بستروں میں تبدیل کردیا۔غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی میں سے 85 فیصد سے زیادہ لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے اور تقریباً 10 لاکھ لوگ مصر کی سرحد کےقریب جمع ہو رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ کھلی جگہوں یا ساحلوں پر خیموں میں رہتے ہیں۔
حنون خاندان ان پانچ خاندانوں میں سے ایک ہے جو پولٹری فارم میں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہاں رہنا معیاری زندگی کے ادنیٰ ترین درجے میں رہنے سے بھی بدتر ہے۔ ام مہدی حنون نے پنجروں کے درمیان کھڑے ہوتے ہوئے کہا کہ آج ہم جانوروں کے لیے موزوں جگہ پر رہتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی بچہ مرغی کے پنجرے میں سو رہا ہے؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ جگہ بہت خراب ہے۔ ہم پر پانی گر رہا ہے۔ سردی بچوں، بڑوں اور بیماروں کے لئے جان لیوا ہے۔ کبھی کبھی ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہم رات کو سوتے سوتے مرجائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے یہاں آ کر تکلیف اٹھائی۔ یہاں کیڑے مکوڑے اور مچھر ہیں۔ ہمارے ساتھ بچے بھی ہیں۔
پہلے تو ان کا خیال تھا کہ وہ صرف چند دن وہاں رہیں گے لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا گیا انہیں حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا اور یہ ماننا پڑا کہ پولٹری فارم طویل عرصے تک ان کا گھر رہے گا۔ انہوں نے پنجروں کے دھاتی تختوں کو بستر کے طور پر استعمال کیا اور جب انہیں آٹا ملا تو روٹی بنانے کے لیے فرش پر دھات کا چولہا بھی استعمال کیا۔