مہاراشٹرا

مسلم لڑکی نے قائم کی قابل تقلید مثال

ڈاکٹر ماریہ نے اپنی اس کامیابی کو ، اپنے والدین کی جانب سے دی گئی تربیت اور رہنمائی کا ثمرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ " یہ میری مرحومہ والدہ، شفیق اور محنتی والد کی دعاوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

ممبئی: مشکل وقت میں صبر و برداشت کا مظاہرہ، احتیاط، اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل پر نگاہیں جمائے رکھ کر اسے پانے کا عزم اگر کسی کے پاس ہو تو کامیابی یقیناً اس کے پاؤں چومتی ہے، اور وہ اپنی منزلِ مراد کو پا ہی لیتا ہے۔

متعلقہ خبریں
ممبئی سمیت مہاراشٹر میں پانچویں اور آخری مرحلے کیلئے انتخابی مہم ختم
گجرات کی 25 سیٹوں پر انتخابی مہم کا شور ختم
راج ٹھاکرے کی تصویر پر مہاراشٹر میں نیا تنازعہ
مہاراشٹرا میں دستانے بنانے والی فیکٹری میں آتشزدگی، 13 مزدور ہلاک
چار سالہ لڑکی کو مسلسل اذیت دینے پر باپ اور 2 چاچاؤں کے خلاف کیس درج

ایسی ہی ایک خوش کن اور قابل تقلید مثال پیش کی ہے ممبئی کی ایک باہمت مسلم لڑکی ڈاکٹر ماریہ انصاری نے بی ایچ ایم ایس ماسٹرس ڈگری (ایم ڈی ) میں پورے مہاراشٹرا میں اول مقام حاصل کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔

ڈاکٹر ماریہ نے جالنہ کے ‘ گرو مشری ہو میو پیتھک میڈیکل کالج اور اسپتال’ سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے یہ نمایاں کامیابی حاصل کی۔ قابل ذکر ہےکہ ڈاکٹر ماریہ، پورے مہاراشٹر میں واحد اور پہلی مسلم ڈاکٹر ہیں، جنھوں نے نہ صرف (ایم ڈی ) میں گولڈ میڈل کا یہ اعزاز حاصل کیا، بلکہ اس سے قبل 2017 میں بھی وہ بی ایچ ایم ایس میں دو گولڈ میڈل حاصل کر چکی ہیں۔

ڈاکٹر ماریہ نے اپنی اس کامیابی کو ، اپنے والدین کی جانب سے دی گئی تربیت اور رہنمائی کا ثمرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ” یہ میری مرحومہ والدہ، شفیق اور محنتی والد کی دعاوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس موقع پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر ماریہ نے مزید کہا کہ حالات چاہے کیسے بھی کیوں نہ ہوں، اگر ہم پوری محنت ، لگن اور صبر کے ساتھ صحیح سمت میں اپنی کوشیشیں جاری رکھیں تو کسی بھی ہدف کو پایا جاسکتا ہے”۔

ڈاکٹر ماریہ کے دورانَ تعلیم پیش آئے مشکل حالات کا ذکرکرتے ہوئے ان کے والد انصاری اعجاز احمد نے بتایا کہ، ” جب کوویڈ-19 ممبئی اور ملک کے دیگر حصوں میں پھیل رہا تھا، اور کوویڈ-19 کی دہشت اور اس کے پھلاو سے ہر کوئی متاثر، پریشان اور خوفزدہ تھا، اس وقت بھی ماریہ نے اپنی گھریلوں ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ، اپنی پوری توجہ تعلیم پر رکھی ۔ اسی دوران جب کوویڈ -19 کی وجہ سے ماریہ کی والدہ ڈاکڑ فرزانہ جو خود بھی ایک ڈاکٹر تھیں، اور اپنا کلینک چلا تی تھیں، وہ کوویڈ سے متاثر ہوئیں اور اسپتال میں شریک ہوئی تو ماریہ کی ذمہ داریوں میں اچانک اضافہ ہو گیا۔انھیں اپنے والدہ کی تیماداری، اور دیگر گھریلو کام کاج کرتے ہوئے اپنی تعلیم کے لیے وقت نکالنا پڑرہاتھا۔

اس کے بعد جب کوویڈ کے باعث ماریہ کی والدہ انتقال کر گیں تو اس مشکل وقت میں بھی جب ہم سب افسردہ اور غمگین تھے، ماریہ نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا، اپنے بھائی جو قانون کی تعلیم حاصل کر ریا تھا، اور والد کا خیال رکھتے ہوئے، تعلیم پر دھیان دیا اور والدہ کے انتقال کے چند ماہ بعد امتحان دے کر گولڈ میڈل حاصل کر کے پورے مہاراشٹرا میں پہلی اور واحد مسلم ڈاکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔

واضح رہے کہ مئی 2022 میں ڈاکٹر ماریہ اعزاز احمد ہومیوپیتھی میں اپنے پوسٹ گریجویٹ امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں جب سانحہ پیش آیا۔ اس کی طبیب اور والدہ ڈاکٹر فرزانہ جو وسطی ممبئی کے گنجان آباد ی والے علاقے ناگپاڑا میں کلینک چلاتی تھیں، کوویڈ 19 سے متاثر ہوئی اور اس کی موت ہوگئی۔

تاہم، مشکل اور مشکل حالات کے باوجود، ناگپاڈا کی اس لڑکی نے اپنی پیاری ماں کو کھونے کے المیے کو اپنی تعلیمی کارکردگی پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور MD (ہومیو پیتھی) امتحانات، 2022 میں طلائی تمغہ جیتا جو مہاراشٹر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ‏(MUHS)، ناسک کے ذریعہ منعقد ہوا۔

ماریہ احمد اب ناگپاڑا میں اپنا کلینک چلاتا ہے حالانکہ اسے کسی پرائیویٹ یا سرکاری ہسپتال میں نوکری مل سکتی تھی۔ "میں اپنی والدہ کی یادوں کو مٹنے نہیں دینا چاہتی ہوں، انہوں نے ایک ساکھ بنائی تھی اور اپنے مریضوں میں زبردست خیر سگالی کا ثبوت دیا تھا۔میں اس کے اچھے کام کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں اور لوگوں کو دینا چاہتا ہوں۔ مجھے اپنی ماں کی بیٹی کے طور پر شہرت ملے۔”

اس تکلیف دہ دن اور راتوں کو یاد کرتے ہوئے جو اس نے، اس کے صحافی والد اعجاز احمد اور قانون کے طالب علم بھائی طلحہ نے اپنی والدہ کے کوویڈ سے انتقال کے فوراً بعد گزارے، اس نے کہا کہ وہ پی پی ای کٹس میں اپنی والدہ کے کلینک میں جائیں گی، گھر کے کام کریں گی، آرام کریں گی۔ اس کے والد اور چھوٹے بھائی۔ "میں اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد ہوں، میری ساری زندگی میں لاڈ پیار کیا گیا اور، جب تک میری ماں وہاں تھی، اس نے ایسا نہیں کیا۔

مجھے باورچی خانے میں داخل ہونے کی اجازت دیں کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ میں اپنی پڑھائی پر توجہ دوں،‘‘ اس نے دوبارہ بلایا۔

صدمے اور درد سے نکل کر اس نے چیزوں کو قابو میں کر لیا۔ "میرے والد ناقابل تسلی تھے، اور میرا بھائی مکمل طور پر بکھر گیا تھا۔ انہیں سہارے کی ضرورت تھی،” انہوں نے کہا۔ اس کے قابل فخر والد احمد نے کہا، "میرا دل ٹوٹا ہوا تھا، اور یہ ماریہ ہی تھی جس نے مجھے امید دی۔ اس نے چیزوں کو قابو میں کیا اور مجھے اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کی ترغیب دی۔ وہ ایک بہادر لڑکی ہے،” اس کے قابل فخر والد احمد نے کہا۔

احمد نے یاد کیا کہ ماریہ اپنی ماں کے اس قدر قریب تھی کہ جوانی کو پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنی ماں کے بستر پر سوتی تھی، ماں اور بیٹی ایک گلے میں بندھے ہوئے تھے۔ احمد نے مزید کہا کہ "تنہائی مجھے مار دیتی لیکن ماریہ نے ہماری دنیا کو اپنی ذہانت، مزاح اور پختگی سے بھر دیا ہے۔”

اس سے پہلے، ماریہ نے گرو مشری ہومیوپیتھک میڈیکل کالج اینڈ اسپتال، جالنہ میں اپنے بی ایچ ایم ایس کے امتحانات فلائنگ کلرز کے ساتھ پاس کیے تھے، اور دو گولڈ میڈل جیتے تھے۔

a3w
a3w