ایشیاء

ہانگ کانگ کی رہائشی عمارتوں میں لگی آگ بجھ گئی، ہلاکتوں کی تعداد 128 تک جاپہنچی

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی دوپہر ضلع تائی پو میں واقع وانگ فک کورٹ ہاؤسنگ اسٹیٹ میں آگ تیزی سے پھیلی اور 36 منزلہ 8 عمارتوں کو اپنی زد میں لے لیا اور اس گنجان آباد کمپلیکس کو جلا کر تباہ کردیا۔

ہانگ کانگ: ہانگ کانگ کے رہائشی کمپلیکس میں لگنے والی بھیانک آگ پر دو روز بعد بالآخر قابو پالیا گیا لیکن تب اس نے 128 لوگوں کی جان لے لی جب کہ لاپتہ افراد کی تعداد درجنوں میں ہے


کئی لاپتہ افراد کے اہل خانہ جمعہ کو اب بھی ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی جستجو میں سرگرداں ہیں۔


خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بدھ کی دوپہر ضلع تائی پو میں واقع وانگ فک کورٹ ہاؤسنگ اسٹیٹ میں آگ تیزی سے پھیلی اور 36 منزلہ 8 عمارتوں کو اپنی زد میں لے لیا اور اس گنجان آباد کمپلیکس کو جلا کر تباہ کردیا۔


فائر سروسز نے کہا کہ تقریباً 40 گھنٹے بعد جمعہ کو صبح 10 بجکر 18 منٹ پر آگ تقریباً قابو پالیا گیا اور آگ بجھانے کا آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔


حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آگ کیسے لگی، جس میں مرمت کے مرحلے سے گزرنے والی عمارت کے گرد لگے بانس اور پلاسٹک شیٹس کا جائزہ بھی شامل ہے، جو بڑے مرمتی کام کا حصہ ہے۔


امدادی کارکن متاثرہ عمارتوں میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے تھے اور لاشیں نکال رہے تھے، اے ایف پی کے ایک رپورٹر نے 15 منٹ میں 4 لاشیں دیکھیں، قریبی علاقے شاٹن میں واقع ایک مردہ خانہ میں گاڑیوں سے لاشیں اتاری گئیں جہاں اہلخانہ دوپہر میں شناخت کے لیے آنے والے تھے۔


کئی لوگ اب بھی لاپتہ ہیں، تاہم لاپتہ افراد کی درست تعداد جمعرات کی صبح کے بعد اپ ڈیٹ نہیں ہوئی، جمعہ کو حکام نے کہا کہ 50 سے زائد افراد ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جن میں 12 کی حالت تشویشناک جبکہ 28 کی سنگین ہے۔
شاٹن کے ایک ہسپتال میں 38 سالہ خاتون وانگ، اپنی بھابی اور بھابی کے جڑواں بچوں کو تلاش کررہی تھیں، لیکن انہوں نے نمناک آنکھوں کے ساتھ اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں اپنے پیاروں کی کوئی خبر نہ ملی۔


انہوں نے کہاکہ ‘ہم ابھی تک انہیں نہیں ڈھونڈ پائے، ہم مختلف ہسپتالوں میں جا کر دیکھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی اچھی خبر تو نہیں ملتی’، وانگ کے مطابق جڑواں بچوں سے آخری رابطہ بدھ کی دوپہر ہوا، جس وقت آگ کی اطلاع دی گئی تھی۔


77 سالہ عینی شاہد، موئی نے بتایا کہ ‘ایک عمارت میں آگ لگی اور 15 منٹ سے بھی کم وقت میں یہ آگ دو اور عمارتوں تک پھیل گئی، یہ سب بہت تیزی سے سوا، سب کچھ سرخ شعلوں میں جل رہا تھا، سوچ کر ہی کانپ اٹھتا ہوں’۔


1948 کے بعد یہ ہانگ کانگ کا سب سے ہلاکت خیز واقعہ قرار دیا گیا ہے، جب ایک دھماکے کے بعد آگ میں کم از کم 135 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


ہانگ کانگ کے اینٹی کرپشن ادارے نے جمعرات کو اس عمارت کی مرمت کے کام کی تحقیقات شروع کر دی اور پولیس نے کہا کہ 3 افراد کو آگ کے مقام پر فوم پیکیجنگ چھوڑنے کے شبہے میں گرفتار کیا گیا ہے۔


اسٹیٹ کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے کوئی فائر الارم نہیں سنا اور پڑوسیوں کو خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے در در پر جانا پڑا۔


اس واقعے کے بعد، ہانگ کانگ کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ تمام رہائشی کمپلیکسز کا فوری معائنہ کرے گی جو بڑی مرمت کے کام سے گزر رہے ہیں، اور بانس کے بجائے آہنی اسٹافولڈنگ کے استعمال پر زور دیا گیا۔


128 ہلاک شدگان میں ایک 37 سالہ فائر فائٹر اور 2 انڈونیشین گھریلو ملازمائیں بھی شامل تھیں، ہانگ کانگ کی حکومت نے متاثرین کی مدد کے لیے 300 ملین ہانگ کانگ ڈالر (تقریباً 38.5 ملین امریکی ڈالر) کے فنڈ کا اعلان کیا، شہر کی انتظامیہ نے متاثرین کے لیے 9 شیلٹرز کھولے اور عارضی رہائش اور ہنگامی فنڈز کا انتظام کیا۔


آگ لگنے کے بعد احتیاطی تدبیر کے طور پر نکالے گئے افراد کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دے دی گئی۔