حیدرآباد

حیدرآبادی لڑکے کی روانی کے ساتھ تلگوبولنے والی فن لینڈ کی لڑکی سے شادی

اس کا کہنا ہے ”میرا تعلق فن لینڈ کے ایک متوسط طبقہ کے خاندان سے ہے۔ ہمارے اسکول میں مختلف زبانیں سیکھنے کا موقع ملتا تھا، تو میں نے انگریزی، سویڈش، روسی اور جرمن سیکھی۔ اپنی انگریزی بہتر کرنے کے لیے میں نے یاہو چیٹ کا رخ کیا اور وہیں 1997 میں میری ملاقات پردیپ سے ہوئی۔

حیدرآباد: یہ کہانی ایک فن لینڈ کی لڑکی اورحیدرآباد کے لڑکے کی ہے۔ ان دونوں کی ملاقات یاہو چیٹ ایپ کے ذریعہ ہوئی، جہاں نہ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور نہ ہی ملے، مگر یہ دونوں محبت میں گرفتار ہو گئے جس کے بعد یہ دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے لیکن اصل کہانی تو جب شروع ہوئی جب اس فن لینڈ کی لڑکی نے اپنے شوہر کے گھر کے رسم و رواج کو مکمل طورپر اپنایا اور نہ صرف روانی سے تلگو زبان سیکھ لی بلکہ ہندوستان کے لئے اپنی محبت کو ایک کاروباری سفر میں بدل دیا۔یہ کہانی رائیتا موچیرلا کی ہے۔

متعلقہ خبریں
مثالی پڑوس، مثالی معاشرہ جماعت اسلامی ہند، راجندر نگر کا حقوق ہمسایہ ایکسپو
عالمی یومِ معذورین کے موقع پر معذور بچوں کے لیے تلنگانہ حکومت کی مفت سہولتوں کا اعتراف مولانا مفتی صابر پاشاہ
تحفظِ اوقاف ہر مسلمان کا مذہبی و سماجی فریضہ: ڈاکٹر فہمیدہ بیگم
محکمہ تعلیم کے سبکدوش اساتذہ کو شاندار اعزاز، ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب
دعا اللہ کی قربت کا دروازہ، مومن کا ہتھیار ہے: مولانا صابر پاشاہ قادری

اس کا کہنا ہے ”میرا تعلق فن لینڈ کے ایک متوسط طبقہ کے خاندان سے ہے۔ ہمارے اسکول میں مختلف زبانیں سیکھنے کا موقع ملتا تھا، تو میں نے انگریزی، سویڈش، روسی اور جرمن سیکھی۔ اپنی انگریزی بہتر کرنے کے لیے میں نے یاہو چیٹ کا رخ کیا اور وہیں 1997 میں میری ملاقات پردیپ سے ہوئی۔ جب اس نے مجھے بتایا کہ اس کی مادری زبان تلگو ہے، تو میں نے پہلی بار اس زبان کا نام سنا اور اسے سیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔

میں نے اپنے یونیورسٹی پروفیسر سے بات کی، اور انہوں نے مجھے 1960 میں عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک استاد کے فن لینڈ میں تلگو زبان پر دیئے گئے لکچرس سے متعلق دو کتابیں فراہم کیں جن کی مدد سے میں نے تلگو سیکھ لی۔پردیپ کے ساتھ میری چار سال کی دوستی محبت میں بدل گئی لیکن ہم نے ابھی تک ایک دوسرے کو نہیں دیکھا تھا۔ ہم دونوں اپنی تعلیم میں مصروف تھے۔

ایک دن پردیپ نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے دیکھنے کے لیے فن لینڈ آئے گا لیکن ویزا نہ مل سکا۔ میں ہندوستان جانا چاہتی تھی، مگر میرے گھر والے راضی نہیں ہوئے۔ پھر جب پردیپ اپنی ماسٹرس کی تعلیم کے لئے لندن گیا، تو میں نے وہاں جا کر اس سے ملاقات کی۔ اس نے مجھے ایک زرد شلوار قمیص تحفہ میں بھیجا اور میں نے وہی پہنا جب میں لندن ایرپورٹ پر اتری تو وہ مجھے اسی لباس میں پہچان گیا۔

“یہ ان کی پہلی ملاقات تھی، اور وہ لباس آج بھی محفوظ رکھا ہوا ہے۔ بعد ازاں انہوں نے لندن میں شادی کی اور 2005 میں فن لینڈ اور ہندوستان میں دونوں ممالک کے روایتی طریقہ سے دوبارہ شادی کی۔ اس لڑکی نے کہا کہ اس کے والدین ہندوستانی روایات سے متعلق فکرمند تھے، مگر جب وہ حیدرآباد آئے اور یہاں کی ثقافت اور یہاں رہنے والوں کے اخلاق سے متاثر ہوئے، تو ان کے تمام خدشات ختم ہو گئے۔ اس نے تلگو اور ہندی زبان میں مہارت حاصل کر لی۔

آج، ان کے چار بچے ہیں، اور وہ ہندوستانی تہذیب کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ اس نے کہا کہ میڑچل میں ایک ماحول دوست مکان تعمیر کروایاگیا پھر انہوں نے 6 ایکڑ اراضی پر نامیاتی کھیتی کی اور دس سال تک حیدرآباد کے شہریوں کو سبزیاں فراہم کیا۔

اس کے بعد انہوں نے ویسٹ واٹر ری سائیکلنگ پراجکٹ شروع کیا اور اپنے باغ میں اکیاٹارن سسٹم نصب کیا جو حیاتیاتی کھاد والے ٹوائلٹس سے نکلنے والے پانی کو زراعت میں دوبارہ استعمال کے قابل بناتا ہے۔ 2017 میں، ان کا پراجکٹ سوچھ بھارت ہیکاتھون میں بہترین قرار پایا اور 3 لاکھ روپے کا انعام دیاگیا۔اس خاتون نے کہا کہ ہندوستان کی ثقافت اور روایات نے اسے بہت متاثر کیا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ اتنی خوشی اور لگن کے ساتھ کر رہی ہے۔