ادبی

حیدرآباد کا پہلا زرعی رسالہ

ہندوستان بھر میں حیدرآباد کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں سے اردو میں بھی زرعی رسائل جاری ہوئے ، حیدرآباد کا پہلا زرعی رسالہ ’’ فنون‘‘ نظام ششم کے دور میں جاری ہوا ۔ نظام ہفتم (1911ء تا 1948ئ) کے دور میں تو متعدد زرعی رسائل شائع ہوتے رہے ۔

قاری ایم ایس خان
9391375008

ہندوستان بھر میں حیدرآباد کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں سے اردو میں بھی زرعی رسائل جاری ہوئے ، حیدرآباد کا پہلا زرعی رسالہ ’’ فنون‘‘ نظام ششم کے دور میں جاری ہوا ۔ نظام ہفتم (1911ء تا 1948ئ) کے دور میں تو متعدد زرعی رسائل شائع ہوتے رہے ۔

فنون

حیدرآباد دکن سے پہلا زرعی رسالہ ’’فنون‘‘ یکم مئی 1883ء کو نواب میرمحبوب علی خاں بہادر نظام ششم کے عہدمیں جاری ہوا ، اسے حکومت کی سرپرستی حاصل تھی ۔ یہ رسالہ زراعت و تجارت اور صنعت وحرفت کو ترقی دینے اور خصوصا ’’ درستگی باغات‘‘ کے لیے جاری کیا گیا تھا ، اس کے ایڈیٹر اور مالک منشی مشتاق احمد احقر تھے اور مہتمم مسٹر جانسن تھے۔ یہ رسالہ مطبع فنون و مذاق سخن پتھر گٹی حیدرآباد میں چھپتا تھا ۔امداد صابری کہتے ہیں کہ یہ رسالہ زمین داروں ، کاشت کاروں ، کاری گروں، پیشہ وروں اور شائقین علم نباتات و جمادات و حیوانات کے لیے کارآمد اور مفید اور خاص طور پر باغ لگانے والوں کے لیے انتہائی فائدہ مند تھا۔ صفحات کی کوئی قید نہیں تھی ، چالیس تا ساٹھ صفحات پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔

’’فنون‘‘ میں نہ صرف حیدرآباد بلکہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے زرعی حالات پر بھی روشنی ڈالی جاتی تھی چنانچہ ممالک مغربی و شمالی اودھ ( یوپی) کا 1885ء میں کتنا رقبہ تھا ، کتنی زمین قابل کاشت اور کتنی بنجر تھی اور کتنی مال گزاری وصول کی جاتی تھی ، اس کی رپورٹ فروری 1886ء کے رسالہ ’’ فنون‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔

غرض ’’ فنون‘‘ اردو کا ایک اہم معلوماتی اور مفید رسالہ تھا اور اپنے موضوع کے لحاظ سے اولیت حاصل تھی۔اس رسالے کی اہمیت اورنوعیت کا اندازہ اس میں شائع شدہ چندمضامین کے عنوانات سے ہوسکتا ہے ۔

1۔امریکہ میں زراعت کی ترقی ۔2۔نیشکر کی زراعت ۔3۔کھاد اور مرکبات کھاد ۔4۔ تر زمین کی تری دور کرکے قابل کاشت بنانا ۔5۔ کافی کی کاشت۔6۔نئے ہلوں کا بیان ۔7زراعتی مدرسے اور نمائش گاہیں ۔8۔ فاسفورس کو بنانے اور اس کو کام میں لانے کی ترکیب۔9۔ امریکہ کی کپاس ۔10۔ گیہوں کی کاشت کا طریقہ مع نقشہ۔11۔ باغبانی کی عجیب و غریب ترکیبیں ۔12۔ درخت کی بیماریاں اور ان کا معالجہ وغیرہ۔

رسالے کا زر سالانہ تین روپئے چھ آنے تھا ، ماہ صفر المظفر 1302ہجری میں یہ رسالہ بند ہوگیا ۔

حیدرآباد کے دیگر زرعی رسائل

حیدرآباد دکن کے مشہور شاعر و ادیب شمس العلماء نواب عزیز جنگ ولا( متوفی 1925ئ) نے جو کئی کتابوں کے مصنف و مرتب ہیں ، زرعی موضوع پر ایک پندرہ روزہ رسالہ عزیز المطابع میں چھپتا تھا، اس کی ضخامت عموماً 52صفحات ہوتی تھی ،زر سالانہ چھ روپئے تھا۔’’ تکمیل الاحکام ‘‘ میں کاشت کے ا صولوں سے بحث کی جاتی تھی اور زراعت سے متعلق مفید معلومات فراہم کیے جاتے تھے ، یہ رسالہ چار حصوں پر منقسم تھا ، حصہ اول میں زراعتی مضامین ،حصہ دوم میں محبوب القوانین ، حصہ سوم میں مجموعہ قوانین مال گزاری اور حصہ چہارم میں مصطلاحات دکن کا ذکر ہوتا ، حصہ اول کی وجہ سے ’’تکمیل الاحکام‘‘ کاشت کاروں میں مقبول تھا ، حصہ دوم اور سوم کی وجہ سے تعلق داران ضلع نے اس رسالے کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا اور حصہ چہارم ادبی نقطہ نظر سے اہمیت رکھتا تھا کیوں کہ اس میں اس دور میں جو اصلاحات رائج تھیں ،ان کا تذکرہ ہوتا تھا ۔

’’ تکمیل الاحکام ‘‘ اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک منفرد رسالہ تھا، یہ رسالہ دو سال تک جاری رہا ۔

دور نظام ہفتم کے زرعی رسائل
زراعت ، پرورش و حفاظت جانوران:

ماہ نامہ ’’فنون‘‘ عرصہ تک جاری رہا ، اس کی کامیابی نے اس قسم کے اور رسائل کی راہ نکالی چنانچہ اگست 1913ء میں وٹرنری سرجن آر آر جوسی نے ’’زراعت ، پرورش و حفاظت جانوران ‘‘کے نام سے ایک رسالہ بہ یادگار سال گرہ جلوس حضور نظام جاری کیا ۔ اس میں زراعت کے ساتھ ساتھ جانوروں کی حفاظت اور ان کی پرورش کے متعلق مفید اور کارآمد مضامین شائع ہوتے تھے ۔ یہ رسالہ امبیکا پریس میں چھپتا تھا ، اس کی ضخامت عموماً چوبیس صفحے ہوتی تھی ۔ ز رسالانہ تین روپئے تھا ، یہ با تصویر رسالہ تھا ، اردو کے علاوہ تلگو اور مرہٹی میں بھی شائع کیا جاتا تھا ۔

رہبر مزارعین

اس رسالے کو انجمن زرعیہ نے جون 1914ء میں جاری کیا تھا ، ابتدا میں محکمہ زراعت کے ناظم مسٹر جان کینی اس کے نگران تھے ، بعد میں یہ مولوی مظہر حسین ناظم زراعت کی نگرانی میں شائع ہونے لگا ، اس کا زر سالانہ دو روپئے تھا۔

کاشتکار

عبدالرزاق بسمل نے جو ایک ادبی ماہ نامہ ’’شہاب‘‘کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مشہور تھے ،ابتدا میں ’’ کاشت کار‘‘ کے نام سے اکتوبر 1930ء میں ایک زرعی رسالہ جاری کیا تھا ۔ یہ رسالہ اردو کے علاوہ تلگو میں بھی شائع ہوتا تھا ، اس رسالے کے اجرا کے چند اہم مقاصد یہ تھے :

زراعت کے فن کو سائنٹفک بنانے میں حکومت کا ہاتھ بٹانا اور کاشت کار جدید تکینک و تحقیقات سے واقف ہوں اور جدید آلات زرعی کا استعمال بہتر طریقے سے کرسکیں ۔ کاشت کاروں کی فلاح و بہبود کے مسائل سے حکومت کو واقف کرانا ،اس رسالے میں زراعت کے علاوہ تجارت اور صنعت و حرفت پر بھی مضامین شائع ہوتے تھے ۔

حیدرآباد فارمر

حیدرآباد فارمنگ اسوسی ایشن نے نظام ہفتم نواب میر عثمان علی خان کی سرپرستی میں اپریل 1931ء میں ایک رسالہ ’’ حیدرآباد فارمر ‘‘‘ جاری کیا ، اس کے ا یڈیٹر اسوسی ایشن کے معتمد نظام الدین تھے ، یہ رسالہ مطبع نظام سلور جوبلی پریس میں طبع ہوتا تھا ۔

حیدرآباد فاریسٹ میگزین/رسالہ جنگلات حیدرآباد

یہ سررشتہ جنگلات کا رسالہ تھا ، جولائی 1941ء میں جاری ہوا ، اس کے سرپرست مہتمم جنگلات مرزا محمد علی بیگ تھے اور مرزا نوازش علی اعزازی ایڈیٹر تھے ۔ ضخامت پچیس تا پینتالیس صفحات اور زر سالانہ دو روپئے تھا ۔ رسالے کا نام حیدرآباد فاریسٹ میگزین تھا۔ اکتوبر 1941ء سے اس کا نام بدل کر رسالہ جنگلات حیدرآباد دکن کردیا گیا ۔

رسالہ زراعت

نظام ہفتم یا ساتویں نظام کے آخری دور میں منیر الدین نے حیدرآباد سے ’’زراعت‘‘ کے نام سے ا یک رسالہ 15مارچ 1947ء میں جاری کیا ، بارہ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ اعظم جاہی برقی پریس میں طبع ہوتا تھا ، زر سالانہ آٹھ روپئے تھا ۔

آج بھی ہندوستان ایک زرعی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ، اس ملک کی ستر فیصد آبادی گاؤں میں رہتی و بستی ہے ۔ ہماری ریاست تلنگانہ کا ایک کثیر رقبہ زراعت پر مشتمل ہے ، ا س لیے جنگلات کی/ کھیتوں کی اور باغات و فارم ہاوزس کی پیداوار کو افادیت بخش بنانے کسانوں اور باغبانوں کو جدید تکنیک و جدید زرعی آلات اور محکمہ زراعت و محکمہ جنگلات کی پالیسیز و مراعات سے اچھی طرح واقف کروانے کے لیے اردو ،تلگو اور انگریزی میں زرعی رسائل کی طباعت و اشاعت بے حد ضروری ہے ۔ 1883ء تا موجودہ فن زراعت اورفن باغات کا تقابلی جائزہ لے کر موجودہ کسانوں کو بذریعہ زرعی رسائل کھیتوں و جنگلات و باغات کو نفع بخش کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟اچھی فصیلیں کیسے اگائی جاسکتی ہیں ؟ یہ سب بتلایا جائے تاکہ زرعی اعتبار سے ہمارا ملک او ر ہماری ریاست خود مکتفی بن جائے ۔
٭٭٭