کیا محمد اظہرالدین کی وزارت ایک انعام ہے یا جوبلی ہلز کے ووٹروں کے دباؤ کا نتیجہ؟ — آصف سہیل کا تجزیہ
انہوں نے آخر میں کہا کہ کانگریس قیادت کو عوام کی نبض کو سمجھنے کی ضرورت ہے — کیا اس وقت اظہرالدین وزارت کے لیے موزوں انتخاب ہیں؟ یا فہیم قریشی جیسی عوامی جڑوں سے وابستہ شخصیت ہی اقلیتوں کی نمائندگی کی اصل علامت ہے؟
حیدرآباد: تلنگانہ کی سیاست میں اس وقت ایک نیا سوال گردش میں ہے — کیا سابق ہندوستانی کرکٹ کپتان محمد اظہرالدین کو ریاستی کابینہ میں شامل کرنا کانگریس کی جانب سے ایک سیاسی انعام ہے یا پھر جوبلی ہلز اور تلنگانہ کے ووٹروں کے بڑھتے دباؤ کا نتیجہ؟
جوبلی ہلز اسمبلی کے ضمنی انتخابات سے قبل سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں، اور قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ کانگریس حکومت اظہرالدین کو وزارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ تاہم، مقامی ووٹروں اور سیاسی مبصرین کے مطابق، یہ فیصلہ اقلیتوں کی حقیقی نمائندگی سے زیادہ سیاسی دباؤ کے تحت کی جانے والی حکمتِ عملی معلوم ہوتا ہے۔
علاقے کے سماجی و سیاسی کارکن اور جوبلی ہلز کنسٹیٹیوینسی کالونیز فورم کے صدر آصف سہیل نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر کانگریس واقعی اقلیتی طبقے کو بااختیار بنانا چاہتی ہے تو وزارت کے لیے سب سے موزوں نام محمد فہیم قریشی (صدر، تلنگانہ مائنارٹی ریزیڈینشل انسٹی ٹیوشنز سوسائٹی – TMREIS) ہونا چاہیے۔
ان کے مطابق، فہیم قریشی نہ صرف عوام کے درمیان متحرک ہیں بلکہ ان کی رسائی اضلاع کی سطح تک مضبوط ہے۔ وہ تعلیمی، سماجی اور فلاحی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے ہیں اور سرکاری اداروں میں عوامی مسائل کو حل کرانے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ مذہبی تنظیمیں اور علما بھی ان کی خدمات اور خلوص کو تسلیم کرتے ہیں۔ آصف سہیل کے بقول، "فہیم قریشی نوجوان، باصلاحیت اور عوامی سطح پر جڑی ہوئی قیادت کی بہترین مثال ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب کئی سینئر اقلیتی رہنما کمزور پڑ چکے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ "کانگریس کو آئندہ عام انتخابات سے قبل اقلیتی طبقے کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ اگر فہیم قریشی جیسے زمینی سطح کے رہنما کو وزارت دی جاتی ہے تو یہ واضح پیغام ہوگا کہ حکومت اُن لوگوں کو ترجیح دے رہی ہے جو واقعی عوام کے درمیان رہتے ہیں۔”
اظہرالدین کے حوالے سے آصف سہیل نے کہا: "میں اظہرالدین کا مداح رہا ہوں، وہ بھارتی کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں، مگر سیاست میدانِ کرکٹ سے الگ ہے۔ انتخابی شکست کے بعد وہ اپنے حلقے میں زیادہ متحرک نظر نہیں آئے، اور نہ ہی ان کے نام سے کوئی نمایاں عوامی کام جڑا ہوا ہے۔ اس وقت انہیں کابینہ میں شامل کرنا عوامی خدمت سے زیادہ سیاسی ایڈجسٹمنٹ معلوم ہوتا ہے۔”
انہوں نے آخر میں کہا کہ کانگریس قیادت کو عوام کی نبض کو سمجھنے کی ضرورت ہے — کیا اس وقت اظہرالدین وزارت کے لیے موزوں انتخاب ہیں؟ یا فہیم قریشی جیسی عوامی جڑوں سے وابستہ شخصیت ہی اقلیتوں کی نمائندگی کی اصل علامت ہے؟
یہ فیصلہ نہ صرف جُبّلی ہلز بلکہ تلنگانہ کے مسلم ووٹروں کے سیاسی رویے پر بھی اثر ڈال سکتا ہے —
کیا انہیں واقعی نمائندگی دی جا رہی ہے یا صرف اس وقت یاد کیا جاتا ہے جب ناراضگی خطرناک حد تک بڑھ جائے؟
آخر میں سوال اپنی جگہ برقرار ہے:
کیا یہ وزارت اقلیتوں کی حقیقی نمائندگی کا آغاز ہے؟ یا محض سیاسی دباؤ کا وقتی حل؟