امریکہ و کینیڈا
ٹرینڈنگ

اسلاموفوبیا: خوشحال مسلم فیملی کو ٹرک سے روندنے والے درندہ صفت کینیڈین شہری کا اعتراف

مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے موقف اپنایا کہ نیتھینیئل ویلٹمین، جو اس وقت 20 سال کے تھے، ’نفرت اور سفید فام قومیت کے نظریے سے متاثر تھے‘ جب انھوں نے اپنے ٹرک سے افضل فیملی کو ٹکر ماری۔

ٹورنٹو: کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں 2021 میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان خاندان کے چار افراد کو گاڑی تلے روند کر ہلاک کرنے والا ملزم ’گھر سے یہ ارادہ کر کے نکلا تھا کہ وہ اپنی گاڑی سے کسی مسلمان خاندان کو روند ڈالے گا۔‘

متعلقہ خبریں
اے پی وزیر کے قافلہ کی گاڑی سے ٹکر ایک شخص ہلاک
جائیداد کی بذریعہ ہبہ بیٹوں، بیٹیوں میں تقسیم
مہذب سماج میں تشدد اور دہشت گردی ناقابل قبول: پرینکا گاندھی
دہشت گردی پر دُہرے معیار کی کوئی گنجائش نہیں، برکس چوٹی کانفرنس سے مودی کا خطاب
ہندوستان نے پاکستانی وزیراعظم کے خطاب کی مذمت کی

واضح رہے کہ 22 سالہ کینیڈین شہری نیتھینیئل ویلٹمین کے خلاف اونٹاریو میں ونڈسر کی ایک عدالت میں دہشت گردی اور قتل کے الزام کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے جس کی سماعت کے دوران عدالت میں یہ انکشاف کیا گیا۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نیتھینیئل ویلٹمین پر الزام ہے کہ 2021 میں انھوں نے جان بوجھ کر پاکستانی نژاد خاندان کو اپنے ٹرک سے اس وقت ٹکر مار کر ہلاک کر دیا جب وہ اونٹاریو میں لندن شہر میں شام کو پیدل چل رہے تھے۔ ملزم نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔

اس مقدمے کی خاص بات یہ ہے کہ کینیڈا کی تاریخ میں پہلی بار کسی جیوری کے سامنے سفید فام قوم پرستی کے تصور کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے۔

دو سال قبل پیش آنے والے اس واقعے میں 46 سالہ فزیوتھریپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ اور پی ایچ ڈی کی طالبہ 44 سالہ مدیحہ سلمان، نویں جماعت کی طالبہ 15 سالہ یمنیٰ سلمان اور اُن کی 74 سالہ ضعیف دادی شامل تھیں۔ سلمان افضل کا نو سالہ بیٹا اس واقعے میں زخمی ہو گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے موقف اپنایا کہ نیتھینیئل ویلٹمین، جو اس وقت 20 سال کے تھے، ’نفرت اور سفید فام قومیت کے نظریے سے متاثر تھے‘ جب انھوں نے اپنے ٹرک سے افضل فیملی کو ٹکر ماری۔

پراسیکیوٹر سارہ شیخ نے سوموار کے دن اپنے ابتدائی دلائل میں 14 رکنی جیوری کے سامنے پیش ہو کر کہا کہ ’اس دن ملزم اپنے ذہن میں ایک ہی مقصد لے کر گھر سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو تلاش کرے اور قتل کر دے۔‘

سارہ شیخ کا کہنا تھا کہ ملزم نے پولیس کو اس حملے کے بعد کہا تھا کہ ’میں جانتا ہوں میں نے کیا کیا ہے اور مجھے اس پر کوئی افسوس نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ دہشت گردی تھی۔ اس کا محرک 100 فیصد سیاسی تھا۔‘

سی بی سی نیوز کے مطابق سارہ شیخ نے جیوری کے سامنے دلائل میں کہا کہ ’اس نے خاندان کو روندنے کے لیے گاڑی کی رفتار تیز کی۔ آپ اس کے اپنے الفاظ سنیں گے کہ وہ ’پیڈل ٹو دی میٹل‘ (یعنی بھرپور رفتار) سے گاڑی چلا رہا تھا۔‘

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے حملے سے دو ہفتے قبل ٹرک خریدا تھا جبکہ اس حملے کی منصوبہ بندی وہ تین ماہ سے کر رہا تھا۔

سارہ شیخ نے عدالت کو بتایا کہ حملہ آور کے فلیٹ سے ایک منشور ملا جس میں اس نے اپنی شناخت سفید فام قوم پرست کے طور پر کی۔

کینیڈا میں اس مقدمے پر قانونی ماہرین کی گہری نظر ہے کیونکہ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد بنائے جانے والے دہشت گردی کے قوانین کو پہلی بار کسی ایسے ملزم کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جس نے ایک خاندان کو صرف اس لیے نشانہ بنایا کہ وہ مسلمان تھے۔

ویسٹرن اونٹاریو یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر انڈریو بوٹیریل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر استغاثہ اور حکومت کامیاب ہو گئے تو دہشت گردی کی تعریف کو وسعت ملے گی جو کئی اور مقدمات میں استعمال کی جا سکے گی۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر دہشت گردی کے الزامات ثابت نہ بھی کیے جا سکے تو جیوری ملزم کو قتل کے الزامات پر سزا دے سکتی ہے۔