مضامین

جاوید صدیقی کے خاکوں کا روشن دان

جاوید صدیقی کے خاکوں کی کتاب ’روشن دان‘ ایسی روشن، قیمتی اور دلچسپ شخصیات سے متعارف کراتی ہے کہ کچھ دیر کے لئے جاوید صدیقی سے حسد ہونے لگتا ہے کہ کیسی نایاب کہکشائیں انہیں میسر رہیں اور وہ ان کے ساتھ رشتوں میں جڑے رہے۔

علی ابوالحسن

جاوید صدیقی کے خاکوں کی کتاب ’روشن دان‘ ایسی روشن، قیمتی اور دلچسپ شخصیات سے متعارف کراتی ہے کہ کچھ دیر کے لئے جاوید صدیقی سے حسد ہونے لگتا ہے کہ کیسی نایاب کہکشائیں انہیں میسر رہیں اور وہ ان کے ساتھ رشتوں میں جڑے رہے۔ اس کتاب میں دس شخصی خاکے ہیں۔ خاکے کیا ہے، محبت نامے ہیں اور کہانیاں ہیں جو پل پل مڑتی ایک نئی کروٹ لیتی چلی جاتیں ہیں۔ ان خاکوں کا مزاج اردو کے روایتی خاکوں سے کچھ مختلف ہے۔ یہاں شخصیت کے ساتھ اس سے تعلق کو خاصی اہمیت دی ہے۔

اس طرح کے اسی تعلق میں شخصیت کے کئی پہلو کھل کر سامنے آ جاتے ہیں مگر پھر بھی یہ یاداشتوں پر مبنی کوئی مضمون نہیں بنتا بلکہ خاکے کا ہر پہلو اسی طرح موجود رہتا ہے۔ نہ تو صرف توصیفی صفات کا بیان ہے اور نہ ہی کسی کردار کی زندگی کے شب و روز دہرائے گئے ہیں بلکہ سب سے اہم وصف شخصیت کا ایسا تعارف ہے کہ اس کا ہر پہلو متعارف ہو جائے۔

ان خاکوں میں کچھ معروف اور کچھ غیر معروف شخصیات کے خاکے ہیں۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے، شخصیات کا انتخاب صدیقی صاحب کے ان سے تعلق کی بنیاد پر کیا گیا ہے وگرنہ ان کا واسطہ بہت سی معروف شخصیات سے رہا اور وہ چاہتے تو ان سب کے خاکے لکھ سکتے تھے۔ خاکہ لکھنے کے لئے صرف طویل اور قریبی تعلق کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی کردار ایسا غیر معمولی ہوتا ہے کہ اس کا خاکہ لکھا جا سکے بلکہ کردار اور تعلق کہیں مل کر خاکہ نگار کے انتخاب میں عمل پیرا ہوتے ہیں۔

اس کتاب کا پہلا خاکہ ’اک بنجارا‘ نیاز حیدر کا ہے۔ اور کوئی بھی انڈین فلموں سے دلچسپی رکھنے والا شخص ان سے نا واقف نہ ہو گا، مگر جاوید صدیقی کے خاکے میں نیاز صاحب کی فلم نگاری کا سرسری سا ذکر ہے اور خاکے میں ہماری ملاقات ایک اور ہی نیازحیدر سے ہوتی ہے۔ اس خاکے میں نیاز صاحب کی پوری زندگی کا احوال ایک عکس کی صورت میں ایسا قلم بند ہوا کہ عموماً ایسے لوگوں کو ان کی زندگی میں وہ محبت نہیں مل پاتی جو ایسی کسی تحریر کی صورت میں ملنے لگتی ہے۔

ایسا ہی ایک اور خاکہ فلم کی دنیا کے ایک اور بڑے نام ’ابرار علوی‘ کا ہے۔ ’گرو جی‘ ابرار علوی کی بظاہر اکہڑ طبعیت کے پیچھے چھپے ایک سادہ سے انسان کو لا سامنے کھڑا کرتا ہے۔ جاوید صاحب نے صرف واقعات کو بیان نہیں کیا بلکہ ان واقعات کو ایسے انداز میں لکھا ہے کہ ہر واقعہ شخصیت کا ایک نیا در وا کرتا چلا جائے۔ یہ ابرار علوی کے فلمی سفر کی ایک داستان بن جاتا ہے۔

’موگرے کی بالیوں والی‘ سلطانہ جعفری اور شاید کسی حد تک سردار جعفری دونوں کا ہی خاکہ ہے۔ اس خاکے کا سب سے اہم پہلو سلطانہ جعفری کی سماجی زندگی ہے۔ ان کا شوہر، دوستوں اور ہمساؤں کے ساتھ وہ تعلق سامنے آتا ہے جو ان کی عملی زندگی میں انہیں ایک مارکسسٹ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یہ خاکہ جاوید صدیقی کی اپنی کہانی بھی خود میں لئے ہوئے ہے۔ ویسے تو ان سب خاکوں میں صدیقی صاحب کا اپنا خاکہ کہیے یا آپ بیتی کا کوئی باب کہیے، صاف نظر آتا ہے۔ یہ بات خاکے میں کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ سلطانہ آپا نہ ہوتیں تو سردار کبھی سردار جعفری نہ ہو پاتے۔ یہ اس کتاب کے طویل خاکوں میں سے ایک ہے۔ جس کے بارے میں جاوید اختر نے کہا کہ اگر جاوید صدیقی مجھ پر ایسا خاکہ لکھنے کا وعدہ کرے تو میں کل مرنے کے لئے تیار ہوں۔

اس کے برعکس ’حجیانی‘ اور ’ایک تھے بھائی‘ کسی معروف شخصیت کے خاکے نہیں بلکہ صدیقی صاحب کے بچپن کے کردار ہیں۔ بانظر غائر دیکھیں تو یہ صرف خاکے نہیں بلکہ کہانیاں ہیں، افسانے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، کہا ں جا کر یہ تحریر ختم ہونی تھی اور کب کون سے کردار کو متعارف کرانا تھا یہ پہلے سے طے تھا۔ شاید ہی اس کتاب کے قارئین میں سے کوئی ان کرداروں کو جانتا ہو، مگر ان خاکوں میں بنتی کہانی حجیانی اور بھائی صاحب سے ایسا تعلق بنا دیتی ہے کہ اختتام پر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل اداس ہو جاتا ہے ان کی باتیں کیوں ختم ہو گئی۔

بھائی صاحب کے تعارف اور ان کے کردار کی بنت میں ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی خاص واقعہ کی جزئیات بنائی جا رہی ہیں۔ جو خاکے کے اختتام میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان دونوں خاکوں کے کردار اپنی کہانیاں جاوید صاحب کی زبانی سنا رہے ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں ذکر ہے ’حجیانی‘ پر پیندرمشرا نے فلم بھی بنائی، جو شاید دستیاب نہیں۔

کچھ خاکے جاوید صدیقی کی بمبئی کی زندگی کو سامنے لاتے ہیں تو کوئی رامپور سے ان کے بمبئی آنے تک کے سفر کی روداد پیش کرتے ہیں۔ ایسا ہی سفر ان خاکوں سے ان کی صحافتی زندگی میں کئی روزناموں سے ہوتا ہوا فلمی دنیا کے آسمانوں تک پہنچتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر خاکہ اور اس کا کردار جاوید صدیقی کی اپنی زندگی کا ایک مکمل باب ہے۔

’مما اور بجیا‘ اپنی نوعیت کی ایک الگ تحریر ہے۔ یہ دونوں کردار صدیقی صاحب کے رشتہ دار ہیں اور ان کی کہانی بھی رامپور کے اردگرد گھومتی ہیں۔ دونوں ہی کردار ایک خاکے میں ایک ساتھ کھل جاتے ہیں اور بیک وقت ان کی خود داری، اکہڑ پن، اصول پسندی اور دریا دلی واقعات سے ملتی چلی جاتی ہے۔ ہر خاکہ اپنے کردار کے مطابق اپنا انداز اور تکنیک بدلتا ہوا چلتا ہے اور اسی طرح اس کی زبان کردار کی شخصیت اور زبان کے مطابق بدل جاتی ہے۔ یہ اظہار کے کثیر انداز جاوید صدیقی کی اردو کے ساتھ جڑت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ زبان سادہ اور عام فہم ہے مگر ہر خاکے کا اپنا ہی ذخیرہ الفاظ اور وکیبلری ہے۔

’ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی‘ مولانا زاہد شوکت علی کا خاکہ ہے جو مولانا شوکت علی کے بڑے بیٹے اور مولانا محمد علی جوہر کے بھتیجے اور داماد تھے۔ یہ خاکہ صرف زاہد شوکت علی کا نہیں بلکہ ’خلافت ہاؤس‘ اور ’روزنامہ خلافت‘ کی کہانی بھی ہے۔ اس طویل خاکے میں زاہد شوکت کی شخصیت کا بھرپور عکس موجود ہے۔ خاکہ ختم ہونے پر کوئی تشنگی نہیں رہتی۔ زاہد صاحب کا مزاج اور کردار کس طور اپنے اجداد سے مختلف تھا یہ بات کئی پہلوؤں سے سامنے آجاتی ہے اور روزنامہ خلافت کے مختلف ادوار اور اس کا اختتامیہ پہلو بہ پہلو زاہد صاحب کے ساتھ چلتا نظر آتا ہے۔ جہاں زاہد شوکت علی کی رنگین طبعیت کے قصے اس خاکے میں موجود ہیں، وہیں بین السطور اس وقت کے ہندوستان کی سیاسی اور سماجی صورت حال کا احوال غیر معمولی انداز میں سامنے آ جاتا ہے۔

کتاب کا آخری خاکہ ’اپنے کامریڈحبیب‘ حبیب تنویر کا ایسا خاکہ ہے جو ان کی مختلف جہتوں میں پھیلی زندگی کا ایسا سرسری جائزہ پیش کیے دیتا ہے کہ ایک چنگاری سے جگا دیتا ہے اور آپ خاکہ ختم ہوتے ہی گوگل پر حبیب تنویر کی مزید تلاش میں سر گرداں ہو جاتے ہیں مگر وہ تشنگی کم نہیں ہوتی۔

جاوید صدیقی کی وجہ شہرت فلم سازی بنی، انہوں نے بیسیوں فلمیں اور ان کے مکالمے لکھے۔ ’شطرنج کے کھلاڑی‘ وہ پہلی فلم تھی جس کے انہوں نے مکالمے لکھے اور شہرت پائی اور پھر ہر نسل کے معروف فلم کاروں کے ساتھ کام کیا۔ مگر ان خاکوں کی صورت بطور ادیب انہوں نے کئی شخصیات کو فلمی کرداروں سے بڑا کردار بنا دیا۔ ’روشن دان‘ کے بعد ان کی ایک اور خاکوں کی کتاب ’لنگر خانہ‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

عموماً سمجھا جاتا ہے کہ اسی شخص کا خاکہ قاری کے لئے دلچسپی رکھتا ہے جو معروف ہو یا جسے وہ ذاتی طور پر جانتے ہوں، میں ان میں سے کسی شخصیت کو نہیں جانتا مگر یہ چار طویل اور چھ کم طویل خاکے کچھ معروف اور کچھ غیر معروف شخصیات کا ایسا عکس پیش کرتے ہیں کہ آپ ان کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچ نہیں سکتے۔
٭٭٭

a3w
a3w