طنز و مزاحمضامین

دعوت

سید محمد جلیل

دعوت سے انسان کا ازلی رشتہ ہے ۔ابلیس کی یہی دعوت تھی جسے قبول کرکے بابائے آدم نے جنت سے نکل کر اس مزرع آخرت کو آباد کیا ۔
دعوت کا نام سنتے ہی کسی کے دل میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے تو کسی کی پیشانی پر سلوٹوں کی لہر،کسی کے منہ میں پانی آجاتا ہے تو کسی کے چہرے پر پانی پھرجاتا ہے ، کسی کے من میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیںتو کسی کی ہمت ٹوٹنے لگتی ہے ۔ یہ مختلف حالات ، دعوت سے اُس شخص کے تعلق پر منحصر ہے، یعنی اوّل الذکر دعوت کھانے والا اور ثانی الذکر دعوت دینے والا۔
یوں تو دعوتیں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔ دعوتِ گناہ، دعوتِ نظارہ، دعوتِ جنگ، دعوتِ سخن ، شعرا نے تو دعوتِ مژگاں کی بھی رعایت فرما دی ہے ۔ لیکن میں جس دعوت کا ذکرخیر لے کر بیٹھا ہوں اسے لذتِ کام و دہن سے ہی جانا جاتا ہے۔ بظاہر اس دعوت کا عداوت سے کوئی تعلق نہیں ،لیکن بباطن یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں یعنی اگر عداوت ہے تو پھر دعوت کا تصور نہیں اور اگر دعوت موصول ہو گئی تو سمجھےے کہ عداوت موقوف۔ گرچہ کسی سے عداوت کرنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا تعلق کسی نہ کسی صورت اس سے قائم ہے، کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی۔
آج کل سیاسی دعوتوں میں تو یہی ضیافت وفاداریاں ناپنے کاپیمانہ ثابت ہورہا ہے ۔ خاص طور پر دعوت افطار میں ، مقامی ہی نہیں عالمی سطح پر اس آلہ¿ مقیاس الوفا کا استعمال بڑی خاموشی اور خوش اسلوبی سے کیا جا رہا ہے۔ دعوت افطار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ روزہ خوروں کی تعداد جتنی زیادہ ہو دعوت اتنی ہی کامیاب تسلیم کی جاتی ہے ۔ البتہ جو بہت محتاط روزہ دار ہیں وہ اپنی جیبوں میں روزہ کھولنے کے اوزار ساتھ لے کر جاتے ہیں اور جب اس سے روزہ کھل گیا تو کھل گیا، اب چاہے جتنا اور جیسا کھانا ہو ،داخل شکم کر لیجئے کوئی مضائقہ نہیں ، کیوں کہ کھانوں کو حلال کرنے کا ”کیپسول“وہ قبل ہی معدے میں داخل کر چکے ہوتے ہیں، یعنی خود بھی خوش ، خدا بھی خوش ۔ رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
دعوت حاصل کرنا بھی ایک الگ فن ہے ۔ تعلقاتِ مبہم سے یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی بلکہ اس کے لےے تعلقات محکم کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اگر یہ ہے تو پھر دعوتیں اس طرح نازل ہوں گی جیسے مفلسی میں بلائیں نازل ہوتی ہیں اور کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سی دعوت کس سے زیادہ بار وَرثابت ہوگی ۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دعوت بہرحال گھر کے کھانے سے بہتر ہوتی ہے ۔ کچھ لوگ تو شب و روز اسی پر انحصار کرتے ہیں ۔ دعوتِ مرغ و ماہی نہ سہی دعوت شیراز یا دعوت سمرقند ہی سہی ، یعنی آئی تو روزی نہیں تو روزہ ۔ ایسے افراد کے ساتھ ”دعوت اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے“والا مسئلہ ہوتا ہے۔
غالب نے تو دال اور بیسنی روٹی کھاکر بھی رباعیاں کہہ ڈالیں ،لیکن آج اگر آپ کسی کو دعوت دے کر بیسنی روٹی نوش فرمانے کو کہیں تو وہ غریب اشعار تو کیا موزوں کرے گا ، دل ہی دل میں ناموزوں الفاظ کا ورد ضرور شروع کردے گا۔
دعوت نے آج کے دور میں ایک سماجی ضرورت اختیار کرلی ہے ۔ پیدا ہوئے تو دعوت، مرے تو دعوت ۔ خوشی کا موقع ہو تو دعوت ، آنسو بہانا ہوتو ساتھ رونے کی دعوت، گرفتار زلف عنبریں ہوئے تو دعوت اور زلف گرہ گیر کی قید سے نجات حاصل ہوئی تو دعوت، بچے کی رسم بسم اللہ ہوئی تو الحمد للہ کہنے کی دعوت اور کسی معتبر اسکول میں داخلہ ہوگیا تو ماشاءاللہ کہنے کی دعوت ۔ نوکری ملی تو دعوت، ترقی ہوئی تو دعوت۔ غرض دعوت کھانے اور کھلانے کا چسکہ لگ گیا تو موقع بے موقع دعوت کی صورت تلاش کرہی لی جاتی ہے ۔اور دعوت دینے والا بیچارہ بے چون و چرا اپنے حلقہ¿ احباب کو حلقہ بگوش رکھنے کے لےے دعوت دیتے رہنے میں ہی اپنی عافیت بلکہ خیریت سمجھتا ہے۔
کہتے ہیں سکندر سے جب کسی نے اس کی کامیابی کا راز دریافت کیا تو کہا کہ ہم جس ملک پر فتح کرتے ہیں وہاں کے عوام پر ظلم نہیں کرتے ۔ میرا خیال ہے اگر یہی سوال فرنگیوں سے کیا جاتا تو شاید ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہم ”دعوت“کے ذریعہ لوگوں کو اپنا ہم نوا بناتے ہیں کیونکہ ان کی دعوتوں کی شان و شوکت سے ہی بادشاہانِ وقت اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں اپنے تخت اور بخت کے الٹنے کا ہوش بھی نہ رہا اور یہ دعوت ہی تھی جس نے بادشاہ بابر کو شیرشاہ کے تیور پہچاننے کا موقع فراہم کیا تھا۔
دعوت میں شرکت کے بعد ایک مسئلہ وقت گزاری کا ہوتا ہے۔کیونکہ تمنّائے شوق بیتاب اوردرازیِ وقفہ صبر طلب ہوتا ہے ۔ خاص کر جان نہ پہچان میں تیرا مہمان جیسے لوگوں کے لےے ۔ ایسے میں دوست بنانے کا فن بڑا کام آتا ہے ۔ ایسی ایسی قرابت داریاں نکل آتی ہیں کہ لوگ خود بخود قریب آجاتے ہیں ۔ ”تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہےے۔“کھاتے وقت پیٹ اور پلیٹ کی گنجائش سے زیادہ پروس لینے والوں کی حالت بھی دیدنی ہوتی ہے جب تک طاقت دیدار بھی جواب نہ دے دے ۔ اٹھنے کا دل نہیں کرتا ۔ گویا وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے یہ ان کا آخری کھانا ہو ۔ غالباً وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ نصیحت تو عبادت کے ضمن میں کی گئی ہے۔
ایک بزرگ جو تقریباً ہر دعوت میں شامل ہو کر اپنی دانست میں فرض کفایہ ادا کرتے ہیں اور مہمان کو یہ باور کرانے کی کوشش میں سرگرداں رہتے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر وہ اس دعوت میں شرکت نہ فرماتے تو ان کے اور میزبان کے آبگینہ¿ تعلقات میں شگاف پڑجانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا جو انھیں قطعی منظور نہیںتھا۔موصوف نے اس غرض سے ایک شیروانی رکھ چھوڑی تھی جسے پہلی بار انھوں نے غالباً اپنی شادی کے موقع پر استعمال کیا تھا اور آج ،نظر بد دور، اپنے پوتوں کے ساتھ بھی اسی شیروانی میں تقاریب کو زینت بخشتے ہیں جونہ جانے کتنی خواستہ و نا خواستہ دعوتوں کا چشم دید گواہ ہے ۔ وہ شیروانی جس کا زیب تن ہونا ہی اس بات کی یقینی علامت تھی کہ آج کہیں نہ کہیںموصوف کے کام و دہن کی آزمائش کا دن ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ دعوت کے نام پر پیلے پیلے دسترخوان جس میں لا ل ہرے پھولوں کے درمیان ایسے اشعار کا تصور ابھرتا تھا جنھیں پڑھ کر کھانے والا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا کہ شاید یہ اس کا اپنا ہی کھانا ہے جو غلطی سے میزبان کے دسترخوان پر تناول فرما رہا ہے۔ پھر دسترخوان پر انواع و اقسام کی نعمتیں پلیٹوں اور قابوں میں سجی ہوتیں، دستِ خود ، دہانِ خود ، جتنا جی چاہے نوش فرمائےے اس کے با وجود میزبان Once moreکی رٹ لگائے کفِ افسوس مَل رہا ہے کہ حضرت آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ۔ اس کے برعکس آج کی دعوتیں ہیں کہ کھانا تو کھانا ، پلیٹوں پر بھی پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے اور معزز مہمانان قطار میں کھڑے کاسہ بدست اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں اور کافی محنت و مشقت کے بعد جب باری آئی توفاتحانہ انداز میں ایک ہاتھ میں لبالب بھری پلیٹ اور دوسرے ہاتھ سے لوگوں کو ہٹاتے بچاتے کسی کونے میں پہنچے توپایا کہ تمام اشیائے خوردنی ایک دوسرے میں اس طرح خلط ملط ہو گئی ہیں کہ اگر: ”کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے“۔ بس حسرت بھری نظروں سے دیکھ کر ہی شکم سیر ہوجانا پڑے ۔ ایسے مواقع پر بزرگوں کی دی گئی تمام ہدایتیں اُلٹی پڑ جاتی ہیں کہ ” دسترخوان پر دوسروں سے پہلے مت بیٹھو، سامنے سے کھاو¿، کھانا اور کھانے والوں کو نہ گھورو، جلدی جلدی لقمہ نہ اٹھاو¿ “وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ کھانا لگنے سے پہلے اگر جگہ پر قبضہ نہ جمایا تو پھر منہ دیکھتے رہ جانا پڑے ۔ جتنا جلد ممکن ہو کھانا شروع کردو ، پسند کی چیزیں گھسیٹ گھسیٹ کر اپنے قریب کرلو اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی نعمت ہائے مابعد پر ٹوٹ پڑو تاکہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں محروم رہ جانے کی خفّت اٹھانی پڑے ۔
جہاں تک صنف نازک کا سوال ہے، یہ موقع توان کی نمائش کے اظہار کا ہے ہی۔ اگر ایسے میں وہ زیوروں سے نہ لدیں اور بسیار پوشاکی کا ثبوت نہ دیں تو ہماری ہی ناک کی درازی پر خطرہ منڈلانے لگے۔
دعوتوںکا ذکر ہوتو بھلا اُن دعوتوں کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے جو قاری اور قلم کار کے رشتہ موہوم کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہیں ۔ اسے تقریب رونمائی بھی کہا جاسکتا ہے ، جس میں بغیر کسی رُو رعایت کے روشناس و نا شناس ، رفیق و رقیب سبھوں کو اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے ۔ ان دعوتوں کی کامیابی میں ناشتے کے پیکٹوں کا بھر پورتعاون شامل ہوا کرتا ہے،جن کے اندرونی آئیٹم کو اس وقت تک صیغہ¿ راز میں رکھا جاتا ہے جب تک تقریب اختتام کے قریب نہ پہنچ جائے ۔ یہ پیکٹ خشک موضوع اور بے مغز تقاریر میں بھی سامعین کو تقریب کی تکمیل تک ہمہ گوش بنائے رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
مختصر یہ کہ دعوت چاہے جیسی ہو ، دعوت دینے اور دعوت کھانے کا سلسلہ ازل سے قائم ہے اور اس کے ابد تک قائم رہنے کے پورے آثار ہیں ۔ دعوت دینے والے کو بھلے ہی داعی بننے کے لئے ہزار پہلو بدلنے پڑیں ،لیکن مدعوئین کی زبان پر تو ہمہ وقت یہی مصرع رہتا ہے۔
”مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت“
٭٭٭