Kashmir: اِمسال زعفران Saffron کی پیداوار میں 30 فیصد کا اضافہ
جنوبی کشمیر کے قصبہ پانپور Pampore جو زعفران کی پیدا وار کے لئے مشہور ہے اور ملحقہ علاقوں کے زعفران کھیتوں میں ان دنوں زعفران اٹھانے کا کام شد و مد سے جاری ہے جہاں مرد و زن کو اس کام میں مصروف دیکھا جا رہا ہے۔
Srinagar: سازگار موسمی حالات اور بروقت بارشوں کے باعث امسال وادی کشمیر Kashmir Valley میں زعفران Saffron کی فصل کی پیداوار میں 30 فیصد اضافہ درج ہوا ہے جو کسانوں کے لئے انتہائی حوصلہ افزا بات ہے۔ یہ دعویٰ زعفران ایسوسی ایشن کشمیر کے چیئر مین عبدالمجید وانی Abdul Majeed Wani کا ہے۔
جنوبی کشمیر کے قصبہ پانپور Pampore جو زعفران کی پیدا وار کے لئے مشہور ہے اور ملحقہ علاقوں کے زعفران کھیتوں میں ان دنوں زعفران اٹھانے کا کام شد و مد سے جاری ہے جہاں مرد و زن کو اس کام میں مصروف دیکھا جا رہا ہے۔
موصوف چیئرمین نے بتایا کہ سال گذشتہ کے مقابلے میں امسال زعفران کی پیدا وار میں تیس فیصد اضافہ درج ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس فصل کی پیداوار میں اضافے کی وجہ ساز گار موسمی حالات اور بر وقت بارشیں ہیں جو اس سے وابستہ کسانوں کے لئے انتہائی حوصلہ افزا بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ان دنوں یہ فصل اٹھانے کا کام شد و مد سے جاری ہے اسی بیچ قومی و بین الاقوامی سطح کے خریداروں کی طرف سے زعفران کی مانگ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
مجید وانی نے کہا کہ Kashmir Saffron Park میں امسال ایک قسم کے زعفران کی قیمت 185 روپے فی گرام جبکہ دوسرے قسم کے زعفران کی قیمت 240 روپے فی گرام طے پائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں زعفران کی قیمت کم ہونے کے باعث کسان پہلے انتہائی مایوس تھے لیکن کشمیر سفرون پارک کے وجود میں آنے سے کسانوں کی یہ مایوسی بھی دور ہوئی ہے جو کہ اب زعفران کی اچھی قیمت طے کرتی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کشمیر کے زعفران کی مانگ میں کافی اضافہ دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اب کشمیر کے زعفران کو ایک مخصوص جغرافیائی نشانی (جی آئی) ٹیگ لگ چکا ہے۔
موصوف چیئرمین نے کہا کہ خریداروں کی طرف سے جو بڑے آرڈر مل رہے ہیں، ان کو پورا کرنا محال لگ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال گذشتہ دبئی کے لولو گروپ نے 30 کلو گرام زعفران کا آرڈر دیا تھا لیکن امسال ان کا آرڈر کافی بڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر سفرون پارک میں پہلے ہی تیس سے چالیس بڑے پیمانے کے قومی و بین الاقوامی خریدار درج ہوئے ہیں۔
عبد المجید کا کہنا ہے کہ یہ سب خریدار امسال کافی بڑے آرڈر دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹاٹا گروپ نے 150 کلو گرام زعفران کا آرڈر دیا ہوا ہے جس کا ایک ہی وقت میں پورا کرنا محال ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹاٹا گروپ کے ساتھ میٹنگ ہو رہی ہے کہ ہم امسال غالباً انہیں 60 کلو زعفران دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سال گذشتہ سویزر لینڈ کی ایک کمپنی نے کشمیر سفرون پارک سے زعفران خریدا تھا اور اس سال اس کمپنی نے ایک بہت ہی بڑا آرڈر دیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سال گذشتہ کے مقابلے میں زعفران بیچنے والوں کی تعداد میں امسال اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ کشمیر سفرون پارک کے ساتھ منسلک نہیں ہیں۔
موصوف نے کہا کہ کشمیر زعفران ایسو سی ایشن نے امسال فیصلہ لیا ہے کہ اگر کسی کسان کو پیشگی رقم کی ضرورت پڑے گی تو اس کو وہ اسی وقت فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشن کی طرف سے دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جو ہم سے 240 روپے فی گرام زعفران خریدتے ہیں وہ اس کو بازار میں پانچ سے چھ سو روپے میں فروخت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی جی ٹیگ سے کشمیری زعفران دنیا بھر میں مشہور ہوگیا ہے اور اس کا مارکیٹ مزید وسیع ہوگیا ہے۔ پہلے ایرانی زعفران کو بھی کشمیری زعفران کے نام پر بیچا جاتا تھا لیکن اب وہ ممکن نہیں ہے۔
مجید وانی نے کہا کہ قصبہ پانپور میں قریب تیس ہزار کنبے زعفران کی فصل کی کاشت کاری سے جڑے ہوئے ہیں اور اس قصبے کا زعفران دنیا بھر میں اپنی بہترین کوالٹی اور ذائقے کے لئے مشہور ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس علاقے کی مٹی زعفران کی فصل کے لئے انتہائی زرخیز ہے اور اب آہستہ آہستہ مزید علاقے اس کے مالی فوائد کو ملحوظ رکھ کر اس فصل کی کاشت کاری کو اپنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بھی سفرون مشن اسکیم کے تحت ہر کسان کو بیس ہزار روپے دئیے تاکہ وہ اس فصل کی کاشت کرسکے۔
موصوف چیئرمین نے کہا کہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ آبپاشی سہولیت فراہم کرنے کے کام کو مکمل کرے جس کو ادھورا ہی چھوڑا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بات لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی نوٹس میں بھی لائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امسال موسم سازگار رہا تو فصل بھی اچھی رہی لیکن اگلے سال موسم پر کوئی بھروسہ نہیں ہے لہذا آبپاشی کی سہولت اگر ہوگی تو کسانوں کو مشکلات سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا۔
مسٹر وانی نے کہا کہ حکومت مزید پچاس کنال اراضی پر زعفران کی نرسری لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس فصل کو جانوروں کی طرف سے نقصان پہنچنے کے خطرات لاحق رہتے ہیں جس کے لئے کئی کسانوں نے اپنے کھیتوں کی فینسنگ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسان فینسنگ اپنے ذاتی خرچے پر لگا رہے ہیں۔