قریبی رشتہ دار سے نکاح
میری شادی میری چچا زاد بہن سے ہوئی ، میری خوش دامن میری خالہ بھی ہیں ، اس طرح دونوں طرف سے قریبی رشتہ داری ہے ، میرے دو تین بچے ہوچکے ہیں ، سبھی پیدائشی طورپر سخت قسم کے دماغی یا جسمانی نقص میں مبتلا ہیں.
سوال:- میری شادی میری چچا زاد بہن سے ہوئی ، میری خوش دامن میری خالہ بھی ہیں ، اس طرح دونوں طرف سے قریبی رشتہ داری ہے ، میرے دو تین بچے ہوچکے ہیں ، سبھی پیدائشی طورپر سخت قسم کے دماغی یا جسمانی نقص میں مبتلا ہیں ،
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ جینیٹک پرابلم ہے ، آئندہ بھی اس طرح کی باتیں پیش آسکتی ہیں ، ایک صاحب نے بتایا کہ اسلام میں بھی قریبی رشتہ میں شادی کرنے کو پسند نہیں فرمایا گیا ہے ، اس کی کیا حقیقت ہے ؟
(عبدالرشید، ملک پیٹ)
جواب :- جن رشتہ داریوں میں نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے ، ان سے تو ظاہر ہے کہ نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ؛ لیکن جن رشتہ داریوں میں نکاح کرنے کی حرمت نہیں ہے ؛ لیکن ماہر ڈاکٹروں کے مطابق ان سے نسلی بیماری جنم لے سکتی ہیں تو بہتر ہے کہ وہاں نکاح نہ کیا جائے ؛
کیوںکہ اپنی اولاد کو ضرر سے بچانا بھی دین میں مطلوب ہے اور غالباً اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری خواتین سے نکاح کرنے کے بارے میں فرمایا کہ ان کو نکاح سے پہلے دیکھ لو کہ ان کے آنکھ میں کچھ ہوتا ہے ، ( مسلم،کتاب النکاح،حدیث نمبر:۱۴۲۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی نقل کی گئی ہے کہ قریب ترین رشتہ دار میں رشتہ نہ کیا کرو کہ اس سے کمزور بچہ پیدا ہوسکتا ہے : ’’ لا تنکحوا القرابۃ القریبۃ فإن الولد یخلق ضاؤیا‘‘
اگرچہ امام الحرمین نے یہ حدیث نقل کی ہے ؛ لیکن علامہ ابن صلاح نے اسے بے اصل قرار دیا ہے ؛ تاہم حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ انھوںنے بعض لوگوں کی جسمانی کمزوری کو دیکھتے ہوئے کہا کہ تم لوگ بہت کمزور نظر آتے ہو ، اس لئے اجنبی خاندان میں شادی کیا کرو :
’’ وقد أضویتم ، فانکحوا فی النوابغ‘‘ شوافع کی کتابوں میں امام شافعیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے خاندان میں شادی کرے تو زیادہ تر اس سے بے وقوف لوگ پیدا ہوتے ہیں : ’’ إذا تزوج الرجل فی عشیرتہ فالغالب علی ولدہ الحمق‘‘ بعض اور اہل علم نے لکھا ہے کہ تجربہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔ ( خلاصہ از : البدر المنیر : ۷؍۴۹۹-۵۰۰)
موجودہ دور میں جینیٹک سائنس نے اس سلسلہ میں کافی معلومات بہم پہنچائی ہے اور یہ بات شرعاً نکاح کے حرام نہ ہونے کے منافی نہیں ہے ،
کسی چیز کے حلال ہونے سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ یہ چیز ہر شخص کے لئے مفید بھی ہو،وہ کسی کے لئے نقصاندہ بھی ہوسکتی ہے ، جیسے شَکَر ایک حلال غذا ہے ؛ لیکن شوگر کے مریضوں کے لئے نقصاندہ ہے ، اب اگر شوگر کے مریضوں کو اس سے منع کیا جائے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے حلال کو حرام کردیا ۔