حیدرآباد میں مسلم لڑکی کو ہندو بناکر شادی، بعد میں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔ شرمناک واردات
بنگلہ دیشی مسلم لڑکی کو ہنی ٹرایپ کے ذریعہ یادگیری گٹہ مندر میں ہندوبناکر عاشق نے شادی کرلی۔ اس کے بعد لڑکی سے فحاشہ گری کروائی گئی۔ نلہ گٹہ پولیس نے بنگلہ دیشی متاثرہ کو ملزمہ بناکر اس کے وطن واپس کرنے کے بجائے جیل بھیج دیا۔
حیدرآباد (منصف نیوزبیورو) بنگلہ دیشی مسلم لڑکی کو ہنی ٹرایپ کے ذریعہ یادگیری گٹہ مندر میں ہندوبناکر عاشق نے شادی کرلی۔ اس کے بعد لڑکی سے فحاشہ گری کروائی گئی۔ نلہ گٹہ پولیس نے بنگلہ دیشی متاثرہ کو ملزمہ بناکر اس کے وطن واپس کرنے کے بجائے جیل بھیج دیا۔ اس سے نلہ کنٹہ پولیس کی تحقیقات (کارکردگی) پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ذرائع کے بموجب بنگلہ دیش ڈھاکہ کے نارائنہ گنج کی رہنے والی منی عرف فرزانہ، والد کا نام کبیر اور والدہ کا نام شبلی بیگم بتایا گیا ہے۔ فرزانہ بیگم شادی شدہ اور ایک لڑکی کی ماں ہے۔ تقریباً ایک سال قبل نظام آباد کا لتاوت پروین کی فرزانہ بیگم سے فیس بک پر ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات پیار میں بدل گئی۔
لتاوت کا پڑوسی اور ان کا دوست آصف نگر کا نریش نے فرزانہ کی مدد کرکے غیرقانونی طور پر ہندوستان بلوایا۔ فرزانہ ویزاگ سے حیدرآباد پہنچی۔ جہاں پروین نے کچھ دن فرزانہ کو رہنے کی جگہ دی اور پھر یادگیری گٹہ کی مندر میں لے جاکر ہندوبناکر شادی کرلی۔
چند ماہ رکھنے کے بعد لڑکی سے فاحشہ گری کروائی گئی جس کے نتیجہ میں وہ ایک شخص نریش اور گن فاؤنڈری کے شنکر راؤ کے ساتھ بھی کچھ دن گزارے۔ فرزانہ نے اس طرح کی زندگی پر اعتراض کیا اور پھر پروین نے اپنی بیوی پرینکا سے جھوٹی شکایت نلہ کنٹہ پولیس میں درج کروائی کہ بنگلہ دیشی خاتون اس کے شوہر کو پھنس رہی ہے جو غیرقانونی طور پر یہاں قیام پذیر ہے۔
پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا اور فرزانہ کو امیر پیٹ کے ریسکیو ہوم منتقل کردیا۔ پولیس کو اس بات کا بھی علم ہوا کہ فرزانہ کا پیان کارڈ اور آدھار کارڈ بھی پروین اور دیگر نے ملکر بنادیا ہے۔ اس کے بعد مبینہ طور پر پولیس ملزمین سے ساز باز کرکے فرزانہ کو بنگلہ دیش واپس بھیجنے کے بجائے پولیس کی تحقیقات قابل ٹھہرانے متاثرہ فرزانہ کو مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا۔
پولیس نے رسمی طور پر پروین اور اس کے ساتھیوں پر بھی مقدمہ درج کیا۔ ملزمین سے کچھ کو گرفتار کیا گیا اور کچھ کو فرار بتایا گیا۔ اس کیس کی تفصیل اخبار میں شائع ہوتے ہی متعلقہ اسپیشل برانچ انسپکٹر کا تبادلہ کردیا گیا جبکہ تحقیقاتی عہدیدار وہیں تعینات ہے۔
سٹی کمشنر پولیس سی وی آنند کو چاہئے کہ کسی اور پولیس اسٹیشن کی خصوصی ٹیم سے اس کیس کی تحقیقات کرواکر خاطی پولیس عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور متاثر ہ کو انصاف دلائیں۔