دہلی کی پرانی گاڑیاں آندھرا پردیش میں فروخت، احتیاطی ہدایات جاری
ڈیزل گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور صرف سی این جی گاڑیوں کو ہی فروغ دیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں لوگ ڈیزل اور پٹرول کی گاڑیاں فروخت کررہے ہیں۔ ان گاڑیوں کے لئے دہلی میں الگ بازار قائم ہیں جہاں سے آندھرا پردیش کے کئی تاجر کم قیمت پر خریداری کر کے انہیں سیکنڈ ہینڈ کاروں کے نام پر فروخت کر رہے ہیں۔
حیدرآباد: دہلی میں بڑھتی فضائی آلودگی کے پیش نظر 15 سال پرانی کاروں اور ٹیکسیوں کو سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔
ڈیزل گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد ہے اور صرف سی این جی گاڑیوں کو ہی فروغ دیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں لوگ ڈیزل اور پٹرول کی گاڑیاں فروخت کررہے ہیں۔ ان گاڑیوں کے لئے دہلی میں الگ بازار قائم ہیں جہاں سے آندھرا پردیش کے کئی تاجر کم قیمت پر خریداری کر کے انہیں سیکنڈ ہینڈ کاروں کے نام پر فروخت کر رہے ہیں۔
کرنول، نندیال، ادونی، ایمیگنور اور دیگر شہروں میں ان گاڑیوں کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ آر ٹی اے اور پولیس حکام نے خریداروں کو محتاط رہنے کی ہدایت دی ہے۔
کاروں کے شوق کا فائدہ اٹھا کر کچھ دھوکے باز سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کرتے ہیں اور ایڈوانس رقم لے کر گاڑی بک کرنے کو کہتے ہیں۔ کئی لوگ اس طرح دھوکہ کا شکار ہوچکے ہیں۔ دہلی اور ہریانہ کے ساتھ دیگر ریاستوں کی گاڑیوں کے مالکین پر بھی مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ نندیال ایم وی آئی روی شنکر نائک نے کہا کہ مالکان کو لازمی طور پر ان گاڑیوں کی رجسٹریشن کروانی چاہیے۔
اگر ٹائر خراب ہوں تو فیول مائلیج کم ہوجاتا ہے اور وہیل الائنمنٹ کی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس لئے دیکھنا ضروری ہے کہ گاڑی میں اصل کمپنی کے ٹائر ہیں یا ری بٹن ٹائر۔ کئی بار پرانے ٹائروں کو پالش کر کے نیا ظاہر کیا جاتا ہے۔
گاڑی خریدنے سے پہلے انجن اور آئل گیج لازمی چیک کرنا چاہیے۔ اگر انجن اسٹارٹ کرنے پر دھواں نکلے، آئل لیک ہو یا بیک فائر ہو تو خطرہ ہے۔ انجن اور چیسیس نمبر آر سی میں درج معلومات سے ملائے جائیں۔ گیئر اور انجن کا تجربہ کرنے کے لئے لانگ ڈرائیو بھی ضروری ہے۔
آر سی، انشورنس، آلودگی کنٹرول سرٹیفکیٹ اور حلف نامہ لازمی حاصل کریں۔ پولیس سے اس بات کی تصدیق بھی کریں کہ گاڑی پر کوئی مقدمہ درج نہ ہو۔ این او سی ملنے کے 15 دن کے اندر رجسٹریشن ضروری ہے ورنہ جرمانہ عائد ہوگا۔ گاڑی کی مدت 15 سال ہے اور روڈ ٹیکس ماڈل اور کمپنی کے حساب سے لگایا جاتا ہے۔
گاڑی کے شیشوں پر کمپنی کا نام اور سال درج ہونا چاہیے۔ اگر نہ ہو تو سمجھیں شیشے بدلے گئے ہیں۔ دروازوں کے ربڑ ہٹا کر دیکھیں، اگر ان پر فیکٹری مارک موجود ہیں تو تبدیلی نہیں کی گئی۔ ڈکی اور فرش کے نیچے میٹ اٹھا کر معائنہ کریں کہ حادثہ کا کوئی نشان تو نہیں۔ نقصان زدہ گاڑیوں کو رنگ و روغن کر کے فروخت کیا جاتا ہے اس لئے ماہر افراد کے ساتھ جا کر گاڑی چیک کرنا بہتر ہے۔
شو روم ٹریک ریکارڈ سے بھی یہ پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ گاڑی کتنی بار سروس کے لئے گئی اور اس پر کون سے پرزے بدلے گئے۔