آندھراپردیش

شادی کے موقع پر دلہے کو ساڑی اوردلہن کو دھوتی پہنادی گئی، گاؤں کی روایت تمام کیلئے حیرت کا سبب

ضلع کے شانم پوڑی گاوں میں شادی کے سلسلہ میں عجیب رسومات کارواج کئی دہائیوں سے چلاآرہا ہے۔ اس علاقہ میں رہنے والوں کی جانب سے شادی کے موقع پر دلہے کو ساڑی جبکہ دلہن کو دھوتی وپگڑی پہنائی جاتی ہے۔

حیدرآباد: یوں توشادی کے سلسلہ میں مختلف علاقوں میں مختلف رسومات اوررواج ہوتے ہیں لیکن آندھراپردیش کے ضلع پرکاشم کے ایک گاوں کی انوکھی رسومات نے تمام کو حیرت زدہ کرتے ہوئے ان کی توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرلیا ہے۔

متعلقہ خبریں
آکاش ایجوکیشنل سروسز نے تلگو زبان میں یوٹیوب چینل کا آغاز کر کے امیدواروں کیلئے تعلیمی رسائی بڑھا دی
آندھراپردیش کے ضلع پرکاشم میں تین منزلہ لاج کی عمارت منہدم
سمہا چلم اپنا سوامی مندر میں دیوار گرنے کا واقعہ، سافٹ ویر انجینئر جواڑا سمیت 8 افراد ہلاک
وقف ترمیمی بل کے خلاف وجئے واڑہ میں زبردست دھرنا
جمعیۃ علماء کی فطرت دنیوی طاقت سے خوفزدہ ہونے کی نہیں: حافظ پیر خلیق احمد صابر

ضلع کے شانم پوڑی گاوں میں شادی کے سلسلہ میں عجیب رسومات کارواج کئی دہائیوں سے چلاآرہا ہے۔ اس علاقہ میں رہنے والوں کی جانب سے شادی کے موقع پر دلہے کو ساڑی جبکہ دلہن کو دھوتی وپگڑی پہنائی جاتی ہے۔

اس گاوں میں تقریباً 100 خاندان رہتے ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر افرادزراعت اور مویشیوں کی افزائش کا کام کرتے ہیں۔یہاں رہنے والے اپنے عقیدہ کے مطابق ناگارپمّا دیوی کی پوجا کرتے ہیں۔

یہاں کے خاندانوں کی کئی دہوں سے جاری روایت کے مطابق جب کبھی ا ن خاندانوں میں سے کسی خاندان کے لڑکے کی شادی طے ہو جاتی ہے، تو وہ اپنے مخصوص رواج کے مطابق شادی کیلئے دلہے کو ساڑی پہنا کر دلہن کی طرح تیارکرتے ہیں، جبکہ دلہن کو دھوتی اور کرتاپہنا کر دلہا کے انداز میں تیارکیاجاتا ہے۔

 دلہے کے ہاتھ میں ترشول اور دلہن کے ہاتھ میں صندل والابرتن دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک بونم (پوجا کا سامان) لے کر اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ گاوں کے باہر ایک مخصوص درخت جس کو وہ مقدس مانتے ہیں تک جلوس کی شکل میں جاتے ہیں۔

وہاں اس درخت کی پوجا کی جاتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رسم کے دوران دلہا اور دلہن کسی دوسرے شخص سے بات نہیں کرتے۔ اس گاؤں کے خاندانوں کا ماننا ہے کہ ان کے آبا و اجداد نے ہونے والی نسل کی بہتری کے لیے یہ روایت شروع کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ اس سے دونوں خاندانوں کے لیے بھلائی ہوتی ہے۔