تلنگانہ

واٹس ایپ گروپس میں پوسٹس سے خاندانی تعلقات متاثر، جھگڑے اور پرتشدد واقعات میں اضافہ

واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر کی جانے والی پوسٹس اب رشتوں میں دراڑ ڈالنے لگی ہیں۔ یہ تنازعات بعض اوقات حملوں اور قتل جیسے سنگین واقعات تک پہنچ جاتے ہیں۔

حیدرآباد: پہلے زمانے میں خاندانوں اور رشتہ داروں کے درمیان جھگڑوں کی بڑی وجہ جائیداد ہوا کرتی تھی لیکن آج کے دور میں ٹکنالوجی نے نئی وجوہات کو جنم دیا ہے۔

متعلقہ خبریں
بی جے پی کے خلاف الیکشن کمیشن سے شکایت
کوہ مولا علی: کویتا کا عقیدت بھرا دورہ، خادمین کے مسائل اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر اظہار برہمی
فراست علی باقری نے ڈاکٹر راجندر پرساد کی 141ویں یومِ پیدائش پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا
فیوچر سٹی کے نام پر ریئل اسٹیٹ دھوکہ، HILT پالیسی کی منسوخی تک جدوجہد جاری رہے گی: بی آر ایس
گورنمنٹ ہائی اسکول غوث نگر میں ’’نومبر کی عظیم شخصیات‘‘ کے پانچ روزہ جشن کا شاندار اختتام، انعامی تقریب کا انعقاد

واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر کی جانے والی پوسٹس اب رشتوں میں دراڑ ڈالنے لگی ہیں۔ یہ تنازعات بعض اوقات حملوں اور قتل جیسے سنگین واقعات تک پہنچ جاتے ہیں۔


اطلاعات کے مطابق مختلف گھروں میں رشتہ دار اور دوست واٹس ایپ یا ٹیلی گرام پر الگ الگ گروپس بناتے ہیں تاکہ معلومات شیئر کی جاسکیں لیکن جب کسی پوسٹ پر کسی نے اعتراض کیا تو بات بڑھتے بڑھتے جھگڑوں اور تلخ کلامی تک جاپہنچتی ہے۔

سکندرآباد کے شنکر نامی شخص، جن کے پاس 12 واٹس ایپ گروپس ہیں، کا کہنا ہے”جب تک سب مثبت بات کرتے ہیں تب تک سب ٹھیک رہتا ہے، لیکن کسی نے اعتراض کیا تو وہی جھگڑوں کی شروعات ہوتی ہے۔“انہوں نے بتایا کہ اگر کسی گروپ میں سالگرہ یا شادی کی مبارکباد نہ دی جائے تو بھی رشتہ دار ناراض ہوجاتے ہیں۔

بعض اوقات کسی کو مبارکباد دینے کے بعد دوسرے کو نظرانداز کردیا جائے تو وہ فون پر الٹی سیدھی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ شنکر کے مطابق کچھ لوگ طنز کرتے ہیں کہ تم صرف پیسے والوں کو ہی مبارکباد دیتے ہو۔
حالیہ دنوں میں ایسے کئی واقعات پیش آئے


تلنگانہ کے سوریاپیٹ میں ایک سماجی گروپ میں پوسٹ پر دیے گئے تالی والے ایموجی پر تنازعہ شروع ہوا، جو بڑھتے بڑھتے قتل تک جاپہنچا۔ مقتول ایک چھوٹا تاجر تھا اور اب اس کا خاندان مشکلات میں ہے۔


اے پی کے گنٹورمیں ایک خاندان کے واٹس ایپ گروپ میں سالگرہ کی مبارکباد نہ دینے پر جھگڑا شروع ہوا اور ایک دوسرے کو فون پر برا بھلا کہا گیا۔


تلنگانہ کے ملگ ضلع میں پرانے ساتھی طلبہ کے گروپ میں ایک استاد کی جانب سے دوسری کمیونٹی کی پوسٹ فارورڈ کرنے پر تنازعہ چھڑ گیا، یہاں تک کہ ایک سابق طالب علم نے استاد کو گالیاں دیں۔


مہاراشٹرا کے پونے ضلع میں 17 سالہ لڑکے کی واٹس ایپ پوسٹ پر ہنگامہ ہوا جس کے نتیجہ میں گاڑیوں اور دکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ پولیس کو مداخلت کرنی پڑی اور 500 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ واٹس ایپ یا سوشل میڈیا پر پوسٹس کرتے وقت سنجیدگی اور تحمل کا مظاہرہ ضروری ہے۔

ایسے پیغامات سے گریز کرنا چاہیے جو کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔ گروپ ایڈمن کی ذمہ داری ہے کہ وہ تنازعات کو بڑھنے نہ دے اور صرف معلوماتی اور مثبت باتوں کو ہی گروپ میں آگے بڑھنے دے۔