وقت کا صحیح استعمال‘ وقت کی ضرورت
ذرا ایک نگاہ اپنے چاروں طرف ڈالیے۔ آپ کو کیا نظرآئے گا۔ بشمول ہمارے ہر شخص وقت کی کمی کاروناروتا دکھائی دے گا۔ میرے پاس اس بات، اس چیز، اس کام کے لیے وقت نہیں ہے۔

”وقت“کہنے میں تو ایک بہت چھوٹا، سادہ سالفظ ہے، لیکن یہ اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتا ہے۔ مختلف معانی ومفاہیم کیلئے استعمال کیاجاتا ہے۔ وقت کی اہمیت بیان سے باہر ہے۔ قوموں کی ترقی اور تنزلی میں وقت کی بڑی اہمیت ہے۔
ہرزمانے میں، باشعور لوگوں نے وقت کی اہمیت کو بیان کیاہے۔ سائنس وٹکنالوجی کی اکثر ایجاد اسی فکر کا نتیجہ ہے، پہیے سے لیکر جیٹ طیارے اور نقارے سے لیکر انٹرنیٹ تک سب میں یہی مقصد کارفرماہے کہ وقت بچایا جاسکے اور اورکم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کیا جاسکے۔
اکیسویں صدی کایہ دور ایجاداتوں اور دریافتوں کے اعتبار سے گزشتہ تمام زمانوں سے ترقی یافتہ ہے، گزشتہ ادوار میں سفر کرنا ایک جان جوکھوں ساکام ہوتا ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچے میں مہینوں لگ جاتے۔
یہی حالت کسی کودوسرے شہرپیغام پہنچانے کی بھی ہوتی، جبکہ آج کے دور میں معاملہ سفر کا ہویا پیغام رسانی کا پہلے جو کام مہینوں میں ہوتا تھااب منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہر شخص وقت کی کمی کی شکایت کرتا نظر آتاہے۔
ذرا ایک نگاہ اپنے چاروں طرف ڈالیے۔ آپ کو کیا نظرآئے گا۔ بشمول ہمارے ہر شخص وقت کی کمی کاروناروتا دکھائی دے گا۔ میرے پاس اس بات، اس چیز، اس کام کے لیے وقت نہیں ہے۔
”وقت ملتاہی نہیں“ ……”میں وقت نہ ملنے کی وجہ سے یہ کام کرہی نہیں سکتا“…… ”ارے بھائی اتنی مصروفیات ہیں کہ رات کے دس بج جاتے ہیں اورآفس کاکام ختم ہی نہیں ہوتا“……”کیا کریں یار! یاتو روزی کمالیں یابچوں کو وقت دے لیں“……”ایک کام ختم نہیں ہوتا دوسرا سرپر کھڑا ہوتا ہے۔آخر میں اپنے لیے یا اپنے گھر والوں کیلئے وقت کیسے نکالوں۔“
روزانہ ہم سب اس نوعیت کے ان گنت ڈائیلاگ سنتے ہیں اور سردھنتے ہیں کیونکہ خود ہمارا بھی یہی ھال ہے کہ ”وقت“ نہیں ہوتا ……”وقت“ نہیں بچتا……”وقت“ نہیں ملتا …… ہر بات، ہرکام کیلئے وقت درکار ہوتاہے اور یہ ہمیشہ کم پڑجاتا ہے۔
وقت استعمال کئے بغیر نہ کوئی کام کرسکتا ہے،نہ کوئی کام ہوسکتا ہے۔ہرفرد کو اپنی محدود زندگی میں کئی کام کرنا ہوتے ہیں۔ تو پھر سوال پیدا ہوتاہے کہ اپنے محدود وقت کو اپنے لامحدود کامون میں کیونکر اورکس طرح استعمال کیاجاسکتا ہے۔ یایوں کہہ لیں کم وقت میں زیادہ کام یا زیادہ تعمیری اورموثر کام کیسے کیاجاسکتا ہے۔
آئن اسٹائن کاکہنا ہے کہ اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفرکرے تووقت اس کیلئے تھم سکتا اور روشنی کی رفتار سے تیزسفر کرے تووہ وقت کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
فی الحال اب تک انسان کوئی ایسی ایجاد نہیں کرسکا جو اسے روشنی کی رفتار سے سفر کرواسکے لیکن انسان کے پاس ایک ایسی شے موجود ہے جس کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی تیز ہے اوروہ ہے اس کاذہن……انسانی ذہن کی کیارفتار ہے، اس کی اصل حقیقت سے کوئی واقف نہیں ہوسکا ہے۔
بالٹی مور(امریکہ) کی جان ہاپکنز John Hopkins یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ذہن کی رفتار کو ناپنے کیلئے کئی تجربات کئے لیکن وہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکال سکے۔
جان ہپکنز یونیورسٹی کے نیورولاجسٹ جان ہارٹ کاکہنا ہے کہ،دماغ کی اسکیننگ سے کئے گئے تجربات سے یہ نتیجہ حاصل ہوا ہے کہ ایک آدمی کا ذہن ایک تصویر کو سمجھنے میں تقریباً 300 ملی سیکنڈز لگاتا ہے، اور 250 سے450 ملی سیکنڈز میں وہ اس پر ردعمل ظاہر کردیتا ہے۔
اس کے متعلق اس کے سوچ کی رفتار550 اور750 ملی سیکنڈکے درمیان ہوتی ہے۔(ایک ملی سیکنڈ برابر ہے سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے۔)
انسان اگر چاہے تو اپنے ذہن کی رفتار سے کم وقت میں زیادہ کام کرسکتا ہے اور یہ صرف مفروضہ نہیں ہے بلکہ دنیا میں کئی لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاکروقت کو قابو میں کرتے ہوئے کم سے کم وقت میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دئیے۔
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروقؓ کے نام سے کون ناواقف ہے آپ نے اپنی حکومت میں بے شمار کارنامے انجام دے کر تاریخ میں کئی نئے باب رقم کئے۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کی مدت دس برس، چھ مہینے، چاردن ہے۔
آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں، اس مختصر مدت میں انہوں نے اتنی بڑی حکومت کو چلانے کیلئے باقاعدہ نظام بھی قائم کیا۔ مقبوضہ ملکوں کو صوبوں میں تقسیم کرکے ہر صوبے کی نگرانی کیلئے ایک والی مقرر کیا۔بیت المال، عدالت، آبپاشی، فوج اورپولیس کے محکمے قائم کئے۔
جیل خانے بنوائے۔ شہر آباد کرائے، نہریں کھدوائیں، سرائے تعمیر کروائے، فوجی چھاؤنیاں بنوائیں، مردم شماری کروائی، اسلامی تاریخ اورسنہ ہجری کاتعین کیا اورجگہ جگہ مکاتب قائم کئے۔ سکندر اعظم نے 33 سال عمر پائی۔ بیس برس کی عمر میں وہ مقدونیہ کاحکمران بنا۔ صرف تیئس سال کی عمر میں وہ دنیا فتح کرنے کیلئے نکلا۔
کم عمری ہی میں یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ مصراور فارس تک فتح کرلیا۔ کئی اور سلطنتیں بھی اس نے فتح کیں جس کے بعد اس کی حکمرانی یونان سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیل گئی۔اس کا انتقال 33 برس کی عمر میں ہوا۔
اس نے ایک منظم فوج کے ساتھ دس برسوں میں 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا، لگ بھگ آدھی دنیاتو اس نے اس دس برسوں ہی میں فتح کرلی۔ کہتے ہیں اگروہ تھوڑی دیر اورزندہ رہ لیتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ پوری دنیا کافاتح نہ بن جاتا۔
شیر شاہ سوری ایسا فرماں رواتھا جس کی ستائش نامور مورخین کرتے رہے ہیں۔وہ ہندوستان کاحکمران تھا اس کا دورحکومت (1540 تا1545ء)صرف پانچ سال رہا، لیکن اس نے مختصر سے دور اقتدار میں ملک کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں کیں اورعوامی بہبود کیلئے کئی کارنامے انجام دئے۔
شیر شاہ سوری نے قیام امن، رعایاکی بھلائی، سلطنت کااستحکام، تجارت میں ترقی، زراعت میں اضافہ اورنظام مالیہ کا اجراء کیااور چارعظیم سڑکیں تعمیرکرائیں اوران کے کنارے کنارہ سایہ داراشجار لگوائے، جن سے آج تک استفادہ کیاجارہاہے-
پہلی سڑک سنار گاؤں جو موجودہ بنگلہ دیش سے شروع ہوکر آگرہ،دہلی اورلاہور سے ہوتی ہوئی دریائے سندھ تک پہنچتی تھی، اسے جرنیلی سڑک کہتے ہیں، اس کی لمبائی ڈیڑھ ہزار کوس تھی، دوسری سڑک آگرہ سے بنارس تک جاتی تھی-
تیسری سڑک آگرہ سے جودھ پور تک جاتی تھیں جب کہ چوتھی سڑک لاہور اور ملتان کو ملاتی ہے۔ شیرشاہ نے ان سڑکوں پر ایک ہزار سات سو سرائیں تعمیر کروائیں۔ سب سے پہلے ڈاک کانظام نافذ کیا۔
اسلام کے نہایت مشہور مفکر امام غزالی نے55برس عمر پائی، امام غزالیؒ نے اپنی عمر تصنیف وتالیفف، درس وتدریس اورطالبان حق وسالکان طریقت کی تربیت میں گزاری تمام ترمصروفیات کے باوجود آپ نے بہت سی یادگار تصانیف چھوڑی ہیں۔
امام غزالیؒ کی تصانیف کی تعداد69بتائی جاتی ہے۔ا ن کے علمی کاموں پر نظر ڈالیں تو وہ علوم وفنون کے چار میدانوں کااحاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں فقہ، اصول فقہ، فلسفہ وکلام،تصوف واخلاق۔ ان چاروں میدانوں میں ان کاکام بڑاقابل قدر ہے۔
امام بخاریؒ کواحادیث یاد کرنے کاشوق بچپن ہی سے تھا، چنانچہ دس سال ہی کی عمر میں آپ کایہ حال تھا کہ مکتب میں جو حدیث سنتے اس کو یاد کرلیتے۔ جب آپؒ کی عمر سولہ برس کی ہوئی تو آپ نے محدث وکیع کے تمام نسخے بھی ازبر کرڈالے۔
عمل حدیث کی طلب میں آپ نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بصرہ، کوفہ، مصر، واسط، الجرائر، شام،بلخ، بخارا، سرو، ہرات اور نیشاپور وغیرہ علمی مرکزوں کا باربار سفر فرمایا۔ سفر کرکے ایک ہزار اسی شیوخ کی خدمتوں میں حاضر ی دی۔ ا مام بخاری کی عمر ساٹھ برس ہوئی۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی دانشمندی، عمل، جرات وبہادری سے مختصر وقت میں ایسی تاریخ رقم کرگئے کہ رہتی تک ان کے کارنامے لکھے اور پڑھے جاتے رہیں۔ حقیقی معنوں میں کامیاب انسان وہی کہلاتا ہے جواپنے وقت کاموثر،بھر پور اورمکمل استعمال کرتاہو۔
٭٭٭