وقف بورڈ سے نکاح،طلاق، خلع کے صداقت ناموں کی اجرائی خطرہ میں
قاضی صاحبان کی عاقبت نا اندیشی، وقف بورڈ عہدیداروں کی من مانی اور محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کے دامن کش رہنے کے نتیجہ میں اس بات کا قوی خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ تلنگانہ میں بانی جامعہ نظامیہ مولانا انوار اللہ فاروقیؒ کا بناء کردہ نظام قضأت قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

حیدرآباد: قاضی صاحبان کی عاقبت نا اندیشی، وقف بورڈ عہدیداروں کی من مانی اور محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کے دامن کش رہنے کے نتیجہ میں اس بات کا قوی خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ تلنگانہ میں بانی جامعہ نظامیہ مولانا انوار اللہ فاروقیؒ کا بناء کردہ نظام قضأت قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔
قانونی کشاکش سے جان چھڑانے کے لئے پرنسپال سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود مسٹر احمد ندیم نے 10 دن قبل ایک سرکیولر جاری کیا جس کے بعد ارباب وقف بورڈ تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں کہ آیا انہیں قاضی صاحبان کو نکاح کے بک لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹرس جاری کرنے چاہئے یا نہیں اور اگر وہ ایسا کرنے سے باز ہوجائیں تو انہیں اپنا قضأت سیکشن ہی برخاست کردینا چاہئے جس کے ذریعہ نکاح، طلاق، خلع اور قبول اسلام کے صداقتنامے جاری کرتا ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر تلنگانہ کے مسلمانوں کے لئے پاسپورٹ، جائیدادوں کے رجسٹریشن اور بیرونی ممالک کے ویزا حاصل کرنے اپنے نکاح کو رجسٹرار آف میریجس کے پاس رجسٹریشن کروانا ہوگا۔یاد رہے کہ وقف بورڈ کی جانب سے قاضیوں کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کا تعین کرنے اور وقف بورڈ کی جانب سے قاضیوں کو وقف بورڈ سے ہی بک لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹرس حاصل کرنے کے لزوم کے خلاف ماضی میں متعدد رٹ درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور عدالت العالیہ نے امور قضأت میں وقف بورڈ کے رول کی نفی کرتے ہوئے کئی فیصلے صادر کئے تھے۔
ایسے ہی ایک کیس میں قاضی حافظ سلیم باشاہ نے ہائی کورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے قاضیوں کے امور میں وقف بورڈ کے رول کو چالینج کیا تھا جس میں وقف بورڈ کو زک اٹھانی پڑی۔ وقف بورڈ کو اس فیصلہ کے خلاف کی گئی اپیل میں بھی مایوسی ہاتھ آئی تھی جس پر وقف بورڈ نے سپریم کورٹ میں خصوصی مرافعہ داخل کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے بھی وقف بورڈ کو کوئی کامیابی تو نہیں ملی مگر اسے اتنی راحت مل گئی کہ وہ صراحت اور نظرثانی کے لئے ہائی کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کرسکتا ہے۔
سال 2011 ء میں وقف بورڈ کے خلاف فیصلہ آنے پر اس وقت کے پرنسپال سکریٹری محکمہ اقلیتی بہبود لنگا راج پانی گڑھی نے ہائی کورٹ کے احکام کی روشنی میں ایک میمو جاری کرتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ قاضیوں کو بک لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹرس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم دریں اثناء چونکہ وقف بورڈ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چالینج کردیا تھا اس لئے دو ماہ بعد پانی گڑھی کے جانشین ڈاکٹر محمد علی رفعت نے اپنے پیشرو افسر کے جاری کردہ میمو معرض التواء میں رکھ دیا تھا جس کے بعد سے وقف بورڈ معمول کے مطابق قاضیوں کو بک لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹرس جاری کرتا رہا ہے اور ساتھ ہی نکاح/طلاق/خلع کے صداقت نامے بھی درخواست گزاروں کو جاری کرتا رہا ہے۔
گزشتہ برس قاضی محمد احسن الزماں قریشی اور دیگر نے وقف بورڈ کے عہدیدراوں کی جانب سے ہراساں کئے جانے سے عاجز ہوکر ہائی کورٹ میں ایک رٹ درخواست دائر کی اور عدلیہ کے سابقہ فیصلوں کی روشنی میں پانی گڑھی کے میمو کو معرض التواء میں رکھنے سے متعلق ڈاکٹر محمد علی رفعت کے جاری کردہ میمو کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے برخاست کرنے کی درخواست دائر کی۔ جس پر احمد ندیم نے عدالت کی پھٹکار سے بچنے پیشگی اقدام کرتے ہوئے مذکورہ پانی گڑھی کے میمو کو معرض التواء میں رکھنے کے میمو سے دستبرداری اختیار کرلی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آصف جاہی نظام سے چلے آرہے مؤثر نظام قضأت کی وجہ سے یہاں کے مسلمان، شادیوں کے لازمی رجسٹریشن سے بھی مستثنیٰ رہے ہیں۔یاد رہے کہ آصف جاہی سلطنت کے خاتمہ کے بعد اگرچہ قاضی صاحبان بدستور اپنے امور انجام دے رہے تھے اور وہ عاقدین کو نکاح کی انجام دہی کے بعد نکاح کے بک لیٹس علیحدہ علیحدہ حوالے کرنے کے ساتھ ساتھ طلب کرنے پر صداقت نامہئ نکاح و صداقت نامہئ طلاق جاری کررہے تھے مگر بیرونی ممالک کی ایمبسیوں کو یہ مشکل پیش آرہی تھی کہ وہ کس صداقت نامہ کو تسلیم کریں اور کس کو نہ کریں چونکہ ان کے پاس جو صداقتنامے داخل کئے جارہے تھے ان میں یکسانیت نہیں تھی۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے تقریباً 60 سال قبل انجمن قضأت اور وقف بورڈ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت یہ طے پایا کہ وقف بورڈ کی جانب سے تمام مسلمہ قاضی صاحبان کو نکاح کے بک لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹرس جاری کئے جائیں گے اور ان قاضی صاحبان کی جانب سے اجراء کردہ بک لیٹس اور طلاق/خلع کے صداقت ناموں کی اساس پر وقف بورڈ صداقت نامہ نکاح اور صداقت نامہئ طلاق/خلع جاری کرے گا۔
یہ نظام ایک عرصہ تک بغیر تعطل اور چالینج کے جاری رہا مگر گزشتہ 30 برسوں میں کئی مواقع پر قاضیوں نے حکومت اور وقف بورڈ کے خلاف عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے ان کے اختیارات کو چالینج کرنا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے کئی فیصلے صادر ہوئے جن میں یہ کہا گیا کہ نکاح کی انجام دہی کے لئے قاضی صاحبان کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کا تعین کرنے کی حکومت یا وقف بورڈ مجاز نہیں ہیں اور نہ ہی قاضی صاحبان کو وقف بورڈ سے نکاح کے بک لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹر حاصل کرنے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ یہی نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے دو فیصلے شاہد ہیں کہ مسلمانوں کے نکاح کے امور کی انجام دہی کے لئے قاضی صاحبان کی خدمات کا حصول ضروری نہیں۔
اگر قاضیوں اور وقف بورڈ و حکومت کے مابین جاری قانونی کشاکش کو ختم کرتے ہوئے سب کے لئے قابل قبول حل دریافت نہیں کیا جاتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب وقف بورڈ کو اپنا قضأت سیکشن بند کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ قاضیوں کی جانب سے نکاح کی انجام دہی کے لئے من مانی فیس وصول کی جانے لگے گی۔ اس کے علاوہ اگر قاضیوں پر سے حکومت کا کنٹرول اور وقف بورڈ کی نگرانی یکسر ختم کردی جائے گی تو قاضی صاحبان اپنی من مانی کرنے لگیں گے اور ممکن ہے کہ تادیبی کارروائی کا خوف نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر قانونی سرگرمیوں کا بھی ارتکاب کرنے لگیں گے اور کسی مسلم خاتون کا کسی کے ساتھ بھی اس کے علم و اطلاع کے بغیر نکاح کا صداقت نامہ جاری کردیں گے۔
اگر اس مسئلہ کو فوری حل نہیں کیا گیا تو ممکن ہے کہ حکومت، مسلم نکاح کے امور کو باقاعدہ بنانے ایک نیا قانون مروج کرے جس میں ایسی دفعات بھی شامل کی جاسکتی ہیں جو عاقدین اور قاضی صاحبان کے لئے غیر ضروری مشکلات پیدا ہوں۔ تازہ پیدا شدہ صورت حال کا سنجیدگی سے نوٹ لیتے ہوئے رکن وقف بورڈ مولانا ابوالفتح بندگی باشاہ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے قضأت کے امور دفتر کمشنریٹ اقلیتی بہبود کو تفویض کردے اور بکس لیٹس، سیاہیہ جات اور رجسٹرس کی طباعت و تقسیم اور صداقت ناموں کی اجرائی وقف بورڈ کو اوٹ سورس کردے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایسا کرسکتی ہے چونکہ قاضیوں کے تقرر اور ان کو معطل کرنے کی مجاز حکومت ہی ہے اور حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی نظام میں باقاعدگی پیدا کرنے کے لئے قواعد مدون کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ نظام سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تو بہت سے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔