شہر کے آدمی کی دیہات میں نماز سے پہلے قربانی
۱۰؍ ذوالحجہ کو دن میں عید الاضحی سے پہلے اگر کوئی شخص اپنا قربانی کا جانور دیہات میں خود لے جائے ؛ تاکہ جلد گوشت کھانے کے لئے مل جائے اور وہ نماز شہر میں آکر پڑھتا ہو تو کیا اس طرح اس کی قربانی درست ہوجائے گی ؟
سوال:- ۱۰؍ ذوالحجہ کو دن میں عید الاضحی سے پہلے اگر کوئی شخص اپنا قربانی کا جانور دیہات میں خود لے جائے ؛ تاکہ جلد گوشت کھانے کے لئے مل جائے اور وہ نماز شہر میں آکر پڑھتا ہو تو کیا اس طرح اس کی قربانی درست ہوجائے گی ؟ (ابو طاہر، عثمان گنج)
جواب : – قربانی کے وقت کے سلسلہ میں قربانی کئے جانے کی جگہ کا اعتبار ہوگا ، جہاں قربانی کی جارہی ہو ، اگر وہ ایسا دیہات ہو ، جہاں جمعہ و عیدین کی نماز نہیں ہوتی ہے ، تو وہاں ۱۰؍ذوالحجہ کی صبح طلوع ہونے کے بعد قربانی کی جاسکتی ہے ،
چاہے شہر میں ابھی نماز عید نہ ہوئی ہو اور چاہے خود قربانی کرنے والے نے ابھی نماز عید نہ پڑھی ہو ؛
کیوںکہ اس میں قربانی کرنے والے کے مقام کا اعتبار ہے ، یہ حکم اس سورت میں تو ہے ہی جب دیہات میں کوئی شخص شہر میں مقیم کسی شخص کی طرف سے قربانی کرے ، یا خود جس شخص پر قربانی واجب ہے ، وہ قربانی کا جانور دیہات میں بھیج دے ، اور اس صورت میں بھی ہے جب وہ خود اپنے ساتھ جانور لے کر جائے:
والمعتبر مکان الأضحیۃ الخ ، فلو کانت فی السواد والمضحی فی المصر جازت قبل الصلاۃ ، وفی العکس لم تجز ، قولہ أن یخرجھا أی یأمر بإخراجھا لخارج المصر أی إلی مایباح فیہ القصر (ردالمحتار : ۹؍۱۶۴)