حج 2024مذہب

حاجی پر حج اور بقر عید کی قربانی

جو شخص ایسے وقت مکہ مکرمہ پہونچاکہ اب ایام حج شروع ہونے میں پندرہ دن سے کم کا عرصہ باقی ہے ،یعنی ۸ ؍ ذی الحجہ سے ۱۴؍ دنوں پہلے یااس سے کم دن باقی تھے کہ وہ مکہ آیاتو اب وہ مسافر ہے،اس لئے بالاتفاق اس پر بقرعید والی قربانی واجب نہیں ،کیونکہ وہ مسافر ہے

سوال:- جس پر حج فرض ہے ،اور اس سعادت کو حاصل کرناچاہتاہے توحج کی قربانی کے علاوہ کیا بقرعید کی قربانی بھی واجب ہوگی ، اگر واجب ہے توقربانی گھر پر کرنی چاہئے یامکۃ المکرمہ ہی میں ؟ (محمد طلحہٰ، ہمایوں نگر)

جواب:-جو شخص ایسے وقت مکہ مکرمہ پہونچاکہ اب ایام حج شروع ہونے میں پندرہ دن سے کم کا عرصہ باقی ہے ،یعنی ۸ ؍ ذی الحجہ سے ۱۴؍ دنوں پہلے یااس سے کم دن باقی تھے کہ وہ مکہ آیاتو اب وہ مسافر ہے،اس لئے بالاتفاق اس پر بقرعید والی قربانی واجب نہیں ،کیونکہ وہ مسافر ہے ،اور قربانی مسافر پر واجب نہیں ہوتی ،علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:ولاتجب الأضحیۃ علی الحاج و أراد بالحاج المسافر (بدائع الصنائع:۴؍۱۹۵)

جو حاجی ۸/ ذی الحجہ سے پندرہ دنوں پہلے مکہ مکرمہ پہونچ جائے وہ مقیم ہے،ایسے شخص پر کیا بقرعید کی قربانی بھی واجب رہے گی ؟اس سلسلہ میں فقہاء حنفیہ سے دونوں طر ح کی باتیں منقول ہیں ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ حاجی پر مطلقابقرعید والی قربانی واجب نہیں : و لا تجب ۔۔۔ و علی المسافرین و لا علی الحاج إذا کان محرما وإن کان من أھل مکۃ(فتاویٰ ہندیہ:۵؍۲۹۳)

اور بعض فقہاء کے نزدیک جو حاجی مقیم ہو ، تو اقامت کی وجہ سے اس پر قربانی واجب ہے ، یہ دوسری رائے زیادہ احتیاط پرمبنی ہے،اس لئے اسی پر عمل ہوناچاہئے ،چنانچہ شامی کی ’’ کتاب الحج‘‘ میں ہے :والتضحیۃ إنما تجب بالشراء بنیتہا أوالإقامۃ ولم یوجد واحد منہما(ردالمحتار:۳؍۵۶۵)

علامہ شامیؒ نے قربانی کے بیان (کتاب الأضحیۃ) میں بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ، پس جو لوگ مکہ میں ایام حج سے پندرہ دنوں پہلے پہونچ گئے ہوں ان پر حج کی قربانی کے علاوہ بقرعید کی قربانی بھی واجب ہوگی ۔

البتہ حج کی قربانی توحدو دحرم ہی میں دی جاسکتی ہے ،لیکن بقرعید کی قربانی کے لئے ایسی کچھ شرط نہیں ،اپنے وطن میں بھی قربانی دے سکتاہے ۔