عید پروگرام رکھنے پر اسکول میں توڑ پھوڑ، بجرنگ دل کی ہنگامہ آرائی | ویڈیو وائرل
انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ بچوں کو نہ صرف عید منانے کو کہا گیا بلکہ انہیں اردو سکھانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
دہرادون: دہرادون کے ایک مشہور اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی، کھڑکیوں کے شیشے توڑے گئے اور فرنیچر کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ وہاں عید پروگرام منعقد کیا گیا تھا جس میں طلباء نے جوش و خروش سے حصہ بھی لیا۔ بتایا گیا ہے کہ طلبا ہندو اور عیسائی تہوار بھی یکساں جوش و خروش سے مناتے ہیں۔
اس واقعہ کے بعد پیر اور منگل کو اسکول کے باہر پولیس کی بھاری فورس تعینات کردی گئی۔
اسکول منگل کو بھی بند رہا، یہاں تک کہ جب مظاہرین نعرے لگاتے رہے اور اسکولوں کی دیواروں کو خراب کرتے رہے۔ یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب کچھ والدین اور مقامی سماجی تنظیموں نے دہرادون کی ضلعی انتظامیہ کو شکایت کی کہ ان کے بچوں کو اس اسکول میں عید کی تقریب میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ بچوں کو نہ صرف عید منانے کو کہا گیا بلکہ انہیں اردو سکھانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
احتجاجی گروپ نے جس نے اسکول کے سامنے اور محکمہ تعلیم کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا، کہا کہ وہ اسکول کے حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یہ اسکول دہرادون کے وسنت وہار میں واقع ہے۔ سی بی ایس ای سے الحاق رکھنے والے اس اسکول کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وہ مذہبی یا کسی اور طرح کے تمام بڑے مواقع پر خصوصی پروگرامس کا ہمیشہ اہتمام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے حال ہی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک خصوصی اسمبلی کا اہتمام کیا۔ عید کے لئے ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس کے دوران بچوں نے مسلم کرداروں کا لباس زیب تن کیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہولی کے دوران امتحانات چل رہے تھے اس لئے کوئی بڑا جشن نہیں منایا گیا۔ جہاں تک طلباء کو اردو سیکھنے پر مجبور کرنے کا تعلق ہے، یہ زبان ہمارے نصاب کا حصہ نہیں ہے۔ ہم صرف دو اختیاری زبانیں پڑھاتے ہیں: فرانسیسی اور سنسکرت۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہمارا ادارہ 37 سال پرانا ہے اور اس کی ہندوستان بھر میں شاخیں ہیں۔ دون برانچ میں تمام کمیونٹیز کے 700 سے زیادہ طلباء پڑھتے ہیں۔ ہمارا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے۔
اسکول انتظامیہ نے یہ بھی واضح کیا کہ اس کا ماننا ہے کہ توڑ پھوڑ دائیں بازو کے گروپس کے ارکان نے کی تھی نہ کہ والدین کے کہنے پر یہ ہنگامہ ہوا ہے جبکہ والدین نے ابھی تک کوئی شکایت بھی نہیں کی ہے۔
ایک مقامی بجرنگ دل لیڈر وکاس ورما نے جو احتجاج میں شامل تھا، کہا کہ محکمہ تعلیم کو یقینی بنانا چاہئے کہ اس طرح کی ’’غیر اخلاقی سرگرمیاں‘‘ اسکولوں میں نہ ہوں۔
سٹی مجسٹریٹ کسم چوہان نے کہا کہ شکایت کو پولیس اور محکمہ تعلیم کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔ کوئی بھی کارروائی کرنے سے پہلے اس کی جانچ کی جائے گی۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ اس سلسلہ میں کتنے والدین کو اعتراض ہے کیونکہ شکایت میں یہ واضح نہیں ہوا ہے۔
محکمہ تعلیم نے کہا کہ انہیں ابھی تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے اور اگر شکایت ملتی ہے تو وہ اس پر کارروائی کریں گے۔
واضح رہے کہ پچھلے مہینے ایک طالب علم کے والدین نے ایک آئی سی ایس ای اسکول میں دوسری جماعت کی انگریزی نصابی کتاب میں اردو الفاظ امی اور ابو کے استعمال کے خلاف اعتراض کے کرتے ہوئے ڈی ایم سے اس کی شکایت کی تھی۔
محکمہ تعلیم کی تحقیقات میں شکایت کو بے بنیاد پایا گیا اور کہا گیا کہ درسی کتاب میں استعمال کی گئی زبان مناسب ہے کیونکہ نئی تعلیمی پالیسی میں کثیر لسانی ترقی اور ملک کے ثقافتی تنوع کو شامل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔