شرجیل امام نے جامعہ ملیہ میں اشتعال انگیز تقریر کی تھی ۔ دہلی کی عدالت کا فیصلہ
دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جامعہ میں 13 دسمبر 2019ء کو شرجیل امام کی تقریر اشتعال انگیز تھی اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اس ہجوم کا حصہ تھے جو اکسا رہاتھا اور اشتعال دلا رہا تھا۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ جامعہ میں 13 دسمبر 2019ء کو شرجیل امام کی تقریر اشتعال انگیز تھی اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی اس ہجوم کا حصہ تھے جو اکسا رہاتھا اور اشتعال دلا رہا تھا۔
ہائی کورٹ نے منگل کے روز ٹرائیل عدالت کے فیصلہ کو پلٹ دیا، جس کے ذریعہ شرجیل امام اور دیگر 10 ملزمین کو الزاماتِ منسوبہ سے بری کیا گیا تھا۔
جسٹس سورنا کانتا شرما نے کہا کہ جامعہ یونیورسٹی میں کی گئی ان کی تقریر اشتعال انگیز تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس ہجوم کا حصہ تھے جو اکسا رہا تھا اور اشتعال انگیزی کررہا تھا۔ 16 جنوری 2020ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی اپنی تقریر میں خود انھوں نے اپنی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔
بنچ نے اس بات کا نوٹ لیا کہ تحقیقات کے دوران دوسری ضمنی چارج شیٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ملزم شرجیل امام نے 13 دسمبر 2019ء کو جامعہ یونیورسٹی میں اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔
عدالت نے کہا کہ ان کی تقریر سے اشارہ ملتا ہے کہ شرجیل امام نے کہا تھا کہ وہ لوگ احتجاج کے بارے میں پمفلٹس تقسیم کررہے تھے اور خود انھوں نے تباہی کی بات کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ انھیں کیا کرنا ہے اور انہیں لاٹھیا کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہجوم کو اکسا رہے تھے اور انہیں مزید کارروائی کے لیے کررہے تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ 13 دسمبر 2019ء کو اس مقام پر تین تا چار ہزار افراد جمع ہوئے تھے جہاں وہ گزشتہ دو ہفتوں سے پمفلٹس تقسیم کررہے تھے۔
اس بات سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ ہفتہ (جمعہ کو) وہاں کتنے لوگ جمع ہوئے ہوں گے، لہٰذا یہ واضح ہے کہ ان سب کا ایک مشترکہ مقصد تھا اور شرجیل امام غیرقانونی طور پر جمع ہونے کی نیت سے وہاں گئے تھے اور ان سب کے ساتھ شامل تھے۔