حیدرآباد

حیدرآباد میں مولانا حافظ پیر شبیر احمد کا بیان

" اس طرح وہ خود کو فضول کام میں تھکا رہا ہے، جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔

انسانیت کی پیدائش اور اس دنیا میں آنے کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور عبادت میں جان اُس وقت پڑتی ہے جب وہ عمل اخلاص کے ساتھ کیا جائے۔

متعلقہ خبریں
کانگریس حکومت چھ ضمانتوں کو نافذ کرنے میں ناکام : فراست علی باقری
جمعیتہ علماء حلقہ عنبرپیٹ کا مشاورتی اجلاس، اہم تجاویز طئے پائے گئے
اہل باطل ہمیشہ سے پیغام حق کو پہچانے سے روکتے رہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
حیدرآباد: شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے 110 ویں عرس مبارک کے موقع پر جلسہ تقسیم اسناد کا انعقاد
حیدرآباد کلکٹر نے گورنمنٹ ہائی اسکول نابینا اردو میڈیم دارالشفا کا اچانک دورہ کیا

چناں چہ اخلاص تمام اعمال کی روح ہے اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہو اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو۔

ہر انسان کا بنیادی مطمع نظر یہی ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس کی رضا حاصل کرے اور جنت کا داخلہ اس کو نصیب ہو۔

اس مقصد کے لیے اخلاص کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اعمال کا حسن معتبر ہوتا ہے نہ کہ محض کثرت ۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا "جس نے موت اور زندگی کو (اس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے۔”

حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد، صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں ان خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے کہا کہ اہل علم نے اخلاص کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اطاعت میں صرف اللہ تعالیٰ کو مقصود بنانا اخلاص ہے۔

بعض نے کہا کہ عمل اس انداز سے کرنا کہ اس میں نہ تو مخلوق کی واہ واہ یا مذمت پیش نظر ہو اور نہ ہی خود وہ کام کرنے والا شخص اس پر اترار ہا ہو۔ بعض کے نزدیک انسان کے اعمال میں اُس کا ظاہر و باطن ہم آہنگ ہو، یہ اخلاص ہے۔ بعض نے فرمایا: "اپنے اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ کو گواہ بنانا۔”

ایک حدیث مبارکہ میں نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: "یقینا اللہ تعالیٰ اپنے متقی، مخلوق سے مستغنی اور اپنے نیک اعمال مخلوق کے دکھاوے سے بچانے والے سے محبت کرتا ہے۔

” حضرت عبداللہ بن مبارک رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اخلاص سے خالی عمل کرنے والے شخص سے کہہ دو کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو نہ تھکائے، کیوں کہ بغیر اخلاص کے عمل کرنے والے کی مثال اس مسافر کی سی ہے، جو اپنے سفری سامان کی جگہ مٹی سے اپنی چادر بھر رہا ہو۔

” اس طرح وہ خود کو فضول کام میں تھکا رہا ہے، جس میں اُسے کوئی نفع نہیں ہے۔

سلسلہ بیان کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے اخلاص کے بڑے اچھے ثمرات اور بڑے عظیم فوائد بیان کیے ہیں، جن میں سے چند فوائد درج ذیل ہیں:

  1. دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اخلاص کے فضائل و ثمرات میں سے ہیں۔
  2. اخلاص اعمال کی قبولیت کا سب سے عظیم سبب ہے، بشرطیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع شامل ہو۔
  3. اخلاص کے نتیجے میں بندے کو اللہ کی اور پھر فرشتوں کی محبت حاصل ہوتی ہے اور زمین والوں کے دلوں میں اس کی مقبولیت لکھ دی جاتی ہے۔
  4. اخلاص عمل کی اساس اور اس کی روح ہے۔
  5. اخلاص تھوڑے عمل اور معمولی دعا پر بیش بہا اجر اور عظیم ثواب عطا کرتا ہے۔
  6. مخلص کا ہر عمل جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو لکھا جاتا ہے، وہ عمل مباح ہی کیوں نہ ہو۔
  7. مخلص جس عمل کی بھی نیت کرے، وہ لکھ لیا جاتا ہے، اگرچہ اسے انجام نہ دے سکے۔
  8. مخلص اگر سو جائے یا بھول جائے تو معمول کے مطابق جو عمل کرتا تھا، اسے لکھا جاتا ہے۔
  9. اگر مخلص بندہ بیمار ہو جائے یا حالت سفر میں ہو تو اس کے اخلاص کے سبب اس کے لیے وہی عمل لکھا جاتا ہے جو وہ حالت اقامت و صحت میں کیا کرتا تھا۔
  10. اخلاص آخرت کے عذاب سے نجات دلاتا ہے۔
  11. دنیا و آخرت کی مصیبتوں سے نجات اخلاص کے ثمرات میں سے ہے۔
  12. اخلاص کے سبب آخرت میں درجات کی بلندی حاصل ہوتی ہے۔
  13. حسن خاتمہ نصیب ہوتا ہے۔
  14. دعاؤں کی قبولیت حاصل ہوتی ہے۔
  15. قبر میں نعمت اور شادمانی کی بشارت ملتی ہے۔
  16. جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات عطا ہوتی ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اخلاص کی حقیقت اور اس کا نور نصیب فرمائے، ہمیں اپنے مخلص بندوں کی جماعت میں شامل فرمائے اور اپنی رضا والی موت نصیب فرمائے۔ آمین