
مولانا محمد ممشاد علی صدیقی
بانی وناظم: ادارہ مبین العلوم قاسمیہ: 9030825540
زندگی بے بندگی شرمندگی ہے۔مذہب اسلام نے انسان کو سکھایا ہے کہ اگر کامیابی چاہتے ہو تو رب کی رضاء کیلئے ہمہ جہتی دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے تقاضائے اسلام کو پورا کرنا کیلئے ہر گھڑی تیار رہے۔اب چاہے وہ بدنی عبادت سے متعلق تقاضا ہو یا مالی ۔اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم کی نرالی اور بے مثالی انداز ہمیشہ چاہتی ہے کہ یہ بندہ اولادآدم ؑ کچھ ایسا کام کرتارہے جس سے ان کی زندگی میں انقلاب رونما ہوتا رہے اوراس کے تقاضاء کو بروئے کار لاتے ہوئے میری قربت بھی ان کومیسر ہوتا رہے۔اس لئے کبھی حکم دیجاتی ہے کہ 24گھنٹوں میں پنچ وقتہ نماز کو پڑھتے رہو ہم تم کو اجروانعام سے مالامال کرتے رہیں گے۔
دیگر اسی طرح کی عبادت بجا لانے پر انعام واکرام ،نواش وعنایات سے نوازتے رہوں گا۔ اسی طرح سال میں ہمارے لئے انعامات خصوصی عنایت کرنے کیلئے دو عیدیں رکھیں۔عید الفطر وعید الاضحی۔عید الفطر رمضان المبارک کی تکمیل پر اور عید الاضحی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو تاکہ اس میں جو عمل بدنی ومالی ہے اس کو ادا کرتے ہوئے اجر عظیم کے مستحق بن سکو۔اس میں ایک عمل قربانی والا ہے جس کو ایک عظیم الشان عبادت ہے اور یہ قربانی کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور امت محمدیہؐ تک مشروع چلی آرہی ہے۔ ہر مذہب وملت کا اس پر عمل رہاہے۔
قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے:’’ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطاء فرمائے‘‘۔(سورۃ الحج آیت نمبر34)مگر اس کی بھی ایک خاص اہمیت رہی کہ قربانی کا عمل اگرچہ امت میں جاری رہاہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں خصوصی اہمیت اختیار کرگیا۔اسی وجہ سے اسے’سنت ابراہیمی ؑ‘کہا گیاہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کا حکم پاکر محض خدا کی رضا مندی کیلئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا۔اسی عمل کی یاد میں ہر سال مسلمان قربانیاں کرتے ہیں۔اس قربانی سے ایک اطاعت شعار مسلمان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ رب کی فرمانبرداری اور اطاعت میں ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہے اور مال ومتاع کی محبت کو چھوڑ کر خالص اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرے اور قربانی کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ قربانی کی طرح دیگر تمام عبادات میں مقصود رضاء الٰہی رہے۔غیر کیلئے عبادت کا شائبہ تک دل میں نہ رہے۔گویا مسلمان کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جائے۔ ان صلاتی ونسکی’ترجمہ’’کہ میری نماز ،میری قربانی،میرا جینا،میرا مرنا،سب اللہ کی رضامندی کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے‘‘۔(سورۃ الانعام آیت نمبر162)قربانی کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ نبی کرم ؐنے اس پر مداومت فرمائی ہے۔روایت میں بات ملتی ہے کہ نبی کریمؐ نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے‘‘۔ (جامع الترمذی)
قربانی اپنے اندر گوناگوں خوبیاں سمیٹے ہوئے ہے ،بس صرف حوصلہ اورہمت کی ضرورت درکار ہے۔جب علم ہوگا کہ یہ کتنا ہمارے کامیابی کا ثمرہ لئے ہوئے ہے تو یقینا اس کے ادا کرنے سے ذرہ برابر غفلت وکوتاہی کا سامنا نہیں کریں گے۔جیسا کہ کئی احادیث میں قربانی کے فضائل وارد ہیں۔ چند حدیث کیا نبی کریم ﷺ کے نام لیوا کیلئے ان کی ایک ہی ادا کافی ہے کہ اس پر قربان ہوجایا جائے چہ جائے کہ بہت ساری حدیثیں اس ضمن میں حاصل رہے۔ایک حدیث مبارکہ ہے حضرت زید بن ارقمؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ نے سوال کیا:یا رسول اللہ ؐ! یہ قربانی کیا ہے؟ (یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟)آپؐ نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی،صحابہ کرام ؓ نے پھر سوال کیا یارسول اللہ ؐ!ان کے بدلے میں کیام لے گا۔فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ)اسی ایک دوسری حدیث میں بات ملتی ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں،سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کو خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ جامع الترمذی)مزید برآں ارشاد مبارکہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی خرچ کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن قربانی پر کیا جائے ہرگز نہیں۔(سنن الدار قطنی)حبیب خدا ﷺ سے محبت کرنے والوںکیلئے مال کیا اگر جان کی قربانی طلب کی جاتی تو بلا تردد کے نبی کے صدقہ میں قربان ہوجاتے۔
مذہب اسلام میں جو اعمال رکھا گیا ہے وہ تمام افراد کیلئے یکساں نہیں ہے ورنہ بہت سارے احباب اس عمل کو نہیں کرسکتے اور گناہگاروں میں شمار ہوتے ۔اس لئے قربانی والا جو مالی عمل ہے جس کے ذریعہ بہت زیادہ رب کی قربت حاصل ہوتی ہے ۔قربانی والا عمل بھی ان کے لئے واجب قراردیا گیا ہے جو صاحب نصاب ہو۔ قرآن وسنت میں قربانی کے تعلق سے کئی دلائل موجود ہیں۔جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ کوثر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فصل لربک وانحر’’آپ اپنے رب کی (خوشنودی کیلئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں(سورۃ الکوثر2)یہاں فَصَلِّ سے مراد نماز عید اور وَانْحَرْ سے مراد قربانی ہے۔یہ بات پائے ثبوت کو پہنچتی ہے کہ نماز عید اور قربانی واجب ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کو قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ)صاحب استطاعت ہونے کے باوجود اگر کوئی قربانی نہیں کرتاہے تو اللہ کے رسول محمد ﷺ ان سے ناراض ہوتے ہیں کیونکہ آپؐ کو سارے جہاں کیلئے رحمت بناکربھیجا گیااور صاحب رحمت ہو وہ کبھی کسی کو حالت ہزیمت اور مصیبت میں نہیں دیکھ سکتے اسلئے وہ دن آنے والے قبل اپنے احساسات کا بر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ آپ صاحب نصاب ہونے کے باوجود اگر قربانی نہیں کرتے ہیں تو آپ عیدگاہ میں نہ آئیں کیونکہ وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ ؐنے سخت وعید ارشاد فرمائی اور وعید ترک واجب پر ہوتی ہے تو معلوم ہوا کہ قربانی واجب ہے۔حضرت جندب بن سفیان البجلی ؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں عید الاضحی کے دن حاضر ہوا۔آپ ؐنے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے قبل(قربانی کا جانور)ذبح کردیاتو اسے چاہئے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح نہیں کیا تو اسے چاہئے کہ عید کی نماز کے بعد ذبح کرے۔ (صحیح البخاری)وقال ابن عمر ھی سنۃ ومعروف(صحیح البخاری) کہ قربانی سنت اور ایک معروف چیز ہے۔‘‘
قربانی کس پر واجب ہے؟جس مردو عورت میں قربانی کے ایام میں درج ذیل باتیں پائی جاتی ہوں اس پر قربانی واجب ہے۔(۱)مسلمان ہو،(2) آزاد ہو (3)صاحب نصاب ہو(4)مقیم ہو،مسافر پر قربانی واجب نہیں۔قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو نصاب صدقۃ الفطر کے واجب ہونے کا ہے۔پس جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عوت پر قربانی واجب ہے۔(الجوہرۃ النیرۃ)
قربانی کے جانور:یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر شریعت مطہرہ وضاحت نہیں کرتی ہے کہ کن جانوروں کی قربانی کرنی ہے اور دیگر جانوروں کی قربانی مشروع نہیں ہے تو اپنی سہولت کے اعتبار سے ایسے اقدام کرتے جس سے ان کو غلط سہولت نظر آتا جبکہ شریعت کے واضح احکام ملنے کے بعد بھی کئی مواقع پر سننے کو ملتاہے کہ ہم نے مرغی کی قربانی دے دی۔مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ میں شہر حیدرآباد سے تقریبا 80کیلو کے فاصلہ پر ایک گائوں گیا تھا جہاں ایک صاحب مجھے کہنے لگے کہ امسال میں نے اپنے گھر کے تمام فرد کے نام سے ایک ایک مرغی کی قربانی دی ہے۔آئندہ سال بیل کی قربانی دوں گا۔ایسے کئی انہونی واقعات سے معاشرہ کا سامنا ہے کیونکہ دینی تعلیم سے دوری اور غفلت یہ سارے حالات کی وجہ ہے۔
اس لئے شریعت میں خاصی وضاحت کے ہر چیز کا احاطہ کردیا گیا ہے تاکہ غفلت اور نااہلی سے محفوظ رہے اور جو عمل کر رہاہے رضاء الٰہی کیلئے اس کا پورا پورا اجر پائے۔قربانی کیلئے جانور کے تعلق سے ہے کہ وہ بھیڑ، بکری، گائے، بھینس، اونٹ (نر،مادہ)ان سب کی قربانی کرسکتے ہیںاور ان کی عمروں کی تفصیلات بھی ذکر کیا گیا ہے کہ بھیڑ،بکری ایک سال، گائے، بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔البتہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اگر ایک سال سے کم عمر کا بھی ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کیلئے عمر والا جانور ذبح کرو ہاں اگر ایسا جانور میسر نہ ہو تو پھر چھ ماہ کا دنبہ ذبح کرو جو سال کا لگتاہو۔(صحیح مسلم)
قربانی کے بڑے جانور جیسے اونٹ،اونٹنی،بیل ،گائے یا بھینس ،بھینسا ہو تو اس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ یعنی ایک جانور سات افراد کے جانب سے کافی ہوجاتا ہے۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ ؐکے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ ؐنے حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (صحیح مسلم) جانور کے ساتھ ساتھ دن کا بھی تعین کردیا گیا ہے تاکہ اس کی ادائیگی کیلئے دنوں میں اختلاف سے محفوظ رہا جاسکے اور اس کی ادائیگی میں تردد سے بچا جاسکے۔ اس کے تین دن متعین کیا گیا ہے وہ ہیں: 10،11اور12ذی الحجہ،اس کے علاوہ ایام میں مذکورہ قربانی قبول نہیں ۔کیونکہ اللہ رب العزت نے سورۃ الحج میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: لیشھدوا منافع لھم ویذکروااسم اللہ فی ایام معلومات ’’تاکہ اپنے فوائد کیلئے آموجود ہوں اور ایام مقررہ میں ان مخصوص چوپائوں پر اللہ کا نام لیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایام معلومات سے مراد یوم النحر (10ذی الحجہ)اور اس کے بعد دودن ہیں۔اس سے مربوط حدیث ہے جن کی راوی حضرت سلمہؓ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ رہنا چاہئے۔تین دن کے بعد قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی بعد میں اجازت دی گئی کہ اسے تین دن کے بعد بھی رکھا جاسکتاہے۔(مستدرک حاکم)حضرت علیؓ سے بھی یہی منقول ہے کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں۔
قربانی سے متعلق جو عمومی مسائل ہیں ان کو بھی بتایا گیا تاکہ اس کی ادائیگی میں کوتاہی اور تجاہل نہ ہوجائے اور اس پر جو اجروثواب حاصل ہونا ہے اس میں کوئی کمی نہ رہ جائے بلکہ کہیں فاش غلطی کی وجہ سے مال کی ضیاء نہ ہوجائے اور ثواب وانعام سے محروم رہ جائیں۔اس لئے ہم کو چاہئے کہ اس طرف خاصی توجہ دیں۔مختصر یہاں احاطہ کیا گیا ہے جن کو بہتر طریقہ سے ذہن نشیں کریں ۔خصی جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے۔(سنن ابی دائود)اگر کوئی آدمی عقیقہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں اپنا حصہ رکھ لے تو یہ جائز ہے۔ فتاویٰ عالمگیری)ایسا لنگڑا جانور جو چلتے وقت پائوں زمین پر بالکل نہ رکھ سکتاہو اس کی قربانی جائز نہیں،البتہ اگر وہ چلنے میں اس پائوں سے کچھ سہارا لیتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (سنن ابی دائود)اگر جانور کے اکثر دانت ٹوٹے ہوئے ہوں کہ چارہ بھی نہ کھاسکتاہو تو اس کی قربانی جائز نہیں،ہاں اگر چارہ کھاسکتاہوتو قربانی جائز ہے۔ ( رد المختار)جس جانور کی پیدائشی طورپر ایک یا دونوں کان نہ ہوں یا کان کا تیسرا یا اسے زیادہ حصہ کٹا یا چرا ہواہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ہاں اگر تیسرے حصہ سے کم کٹا ہواہو تو اس کی قربانی جائز ہے (ترمذی) اگر جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہے لیکن جڑ سے نہیں اکھڑا تو اس کی قربانی جائز ہے اور اگر جڑ سے اکھڑ چکاہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔سنن الطحاوی)جانور کی دم اگر تہائی سے کم کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز ہے اگر تہائی یا اس سے زائد کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز نہیں ہے۔(اعلاء السنن)جانوری اگر اندھا ہو یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زائد روشنی نہ ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں ہاں اگر روشنی تہائی سے کم جاتی رہے تو قربانی جائز ہے۔(فتاویٰ عالمگیری) ذبح کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمان ہو۔لہٰذا مشرک، مجوسی، بت پرست اور مرتد کا ذبیحہ حرام ہے۔(بدائع الصنائع)
گوشت کا حکم:افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک حصہ اپنے گھر کیلئے،ایک حصہ رشتے داروں اور دوست احباب کیلئے اور ایک حصہ فقراء ومساکین میں تقسیم کیا جائے۔ہاں اگر عیال زیادہ ہوں تو سارا گوشت خودبھی رکھ سکتے ہیں۔(عالمگیری)اگر قربانی کے جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت کو وزن کرکے تقسیم کیا جائے نہ کہ اندازے سے۔قربانی کی گوشت کو فروخت کرنا یا اجرت میںدینا جائز نہیں۔قربانی کی کھال اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتے ہیں البتہ اس کو فروخت کرکے قیمت استعمال میں لانا جائز نہیں۔ (عالمگیر)
٭٭٭