تلنگانہ

تلنگانہ کے وزیراعلی کا دورہ عثمانیہ یونیورسٹی۔لوہے کی جالیاں لگانے پر پراوین کمار کا اعتراض

پراوین کمار نے الزام لگایا کہ ریونت ریڈی حکومت طلبہ اور نوجوانوں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیروزگار نوجوان اور طلبہ اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے سوال اٹھا رہے ہیں، مگر حکومت ان کی آواز کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

حیدرآباد: وزیراعلیٰ ریونت ریڈی کے دورۂ عثمانیہ یونیورسٹی کے موقع پر احاطہ میں لوہے کی جالیاں اور بھاری پولیس فورس کی تعیناتی پر بی آر ایس کے رہنما آر ایس پراوین کمار نے سخت اعتراض کیا۔

متعلقہ خبریں
جامعہ عثمانیہ کے 84 ویں کونووکیشن میں مولانا مفتی سید احمد غوری نقشبندی کو عربی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا
ریونت ریڈی کرپشن کے شہنشاہ، تلنگانہ کے مفادات کو نظرانداز کر رہے ہیں: کویتا
کوہ مولا علی: کویتا کا عقیدت بھرا دورہ، خادمین کے مسائل اور ترقیاتی کاموں کی سست روی پر اظہار برہمی
فراست علی باقری نے ڈاکٹر راجندر پرساد کی 141ویں یومِ پیدائش پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا
فیوچر سٹی کے نام پر ریئل اسٹیٹ دھوکہ، HILT پالیسی کی منسوخی تک جدوجہد جاری رہے گی: بی آر ایس

سوشیل میڈیا پر سرگرم پروین کمار نے یونیورسٹی کے مختلف حصوں میں لگائی گئی لوہے کی باڑ کی ویڈیوز پوسٹ کرتے ہوئے حکومت کو نشانہ بنایا۔


انہوں نے کہا کہ جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے یونیورسٹی کو قلعہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور طلبہ کو محصور کر دیا گیا ہے۔ پروین کمار نے سوال اٹھایا کہ وزیراعلیٰ کو یونیورسٹی کے اندر داخل ہونے کے لیے آخر اتنے سخت حفاظتی انتظامات کی کیا ضرورت پیش آئی؟ یہ غیر معمولی بندوبست کیوں کیا گیا؟ کیا طلبہ کسی دہشت گرد کی مانند سمجھے جا رہے ہیں؟


انہوں نے مزید کہا کہ عثمانیہ یونیورسٹی جمہوری تحریکوں کی نرسری ہے، لیکن آج یہاں طلبہ کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق لوہے کی باڑیں اور پولیس کا بھاری بندوبست حکومت کے طلبہ مخالف رویے کو ظاہر کرتا ہے۔


پراوین کمار نے الزام لگایا کہ ریونت ریڈی حکومت طلبہ اور نوجوانوں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیروزگار نوجوان اور طلبہ اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے سوال اٹھا رہے ہیں، مگر حکومت ان کی آواز کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔


انہوں نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے ایسے اقدامات جاری رکھے تو طلبہ اور نوجوانوں میں غصہ مزید بھڑک اٹھے گا اور یہ حکومت کے لیے بڑے چیلنج کا سبب بن سکتا ہے۔