تلنگانہ ہائی کورٹ میں جی ایچ ایم سی حد بندی کے خلاف عرضیوں پر سماعت، جانئے عدالت نے کیا کہا
حیدرآباد میں تلنگانہ ہائی کورٹ کے جسٹس بی وجئے سین ریڈی نے منگل کے روز GHMC میں جاری حد بندی کے عمل کے خلاف دائر رِٹ عرضیوں کے ایک مجموعے کی سماعت کی۔
حیدرآباد میں تلنگانہ ہائی کورٹ کے جسٹس بی وجئے سین ریڈی نے منگل کے روز GHMC میں جاری حد بندی کے عمل کے خلاف دائر رِٹ عرضیوں کے ایک مجموعے کی سماعت کی۔ یہ عرضیاں ناگیندر پرکاش ریڈی اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی ہیں، جن میں پورے حد بندی عمل کو غیر قانونی، من مانی اور آئینی اصولوں کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
عرضی گزاروں کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل ایل روی چندر نے مؤقف اختیار کیا کہ 73ویں آئینی ترمیمی قانون 1992 کے بعد آئین کی روح اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی (Decentralisation) پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وارڈز کا بڑے پیمانے پر انضمام اس بنیادی اصول کے خلاف ہے اور مقامی خود حکمرانی کو بااختیار بنانے کے مقصد کو ناکام بناتا ہے۔
سینئر وکیل نے حکام کی جانب سے اختیار کی گئی غیر معمولی عجلت پر بھی سخت اعتراض کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 5 دسمبر کو کمشنر کو تقریباً 300 وارڈز کے انضمام سے متعلق رپورٹ موصول ہوئی اور صرف چار دن بعد، 9 دسمبر کو ابتدائی نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ ان کے مطابق اس تیزی میں جمہوری عمل کا احترام نظر نہیں آتا اور یہ طرزِ عمل چھوٹی ریاستوں پر چڑھ دوڑنے والے حملہ آور جیسا محسوس ہوتا ہے۔
انہوں نے حد بندی کے عمل میں ایک بنیادی تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ GHMC حدود (تقریباً 650 مربع کلومیٹر) کی آبادی کے پیمانوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے دائرہ اختیار کا فیصلہ کیا جا رہا ہے جو بڑھ کر تقریباً 2,000 مربع کلومیٹر تک جا چکا ہے۔ ان کے مطابق یہ طریقہ کار بذاتِ خود غیر معقول ہے۔
ایک اور اہم اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ عوام کو مؤثر اعتراض داخل کرنے کے لیے بنیادی مواد ہی فراہم نہیں کیا گیا۔ عرضی گزاروں نے کہا کہ نہ تو وارڈ وار آبادی کے اعداد و شمار دیے گئے اور نہ ہی درست نقشے مہیا کیے گئے، جس کی وجہ سے نام نہاد سماعت اور اعتراضات کا عمل محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ گیا ہے۔
حقائق کی سطح پر عرضی گزاروں نے عدالت کی توجہ لانگر ہاؤز کے مرکزی علاقے کو متعلقہ وارڈ سے خارج کرنے جیسے مخصوص معاملات کی طرف بھی مبذول کرائی، جسے ان کے مطابق سرحدوں کی من مانی اور غیر شفاف ازسرِ نو تشکیل کی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد مزید سماعت کے لیے معاملہ ملتوی کر دیا۔