عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کی ضمانت منسوخ
سپریم کورٹ نے اترپردیش کے للت پور ضلع کے تھانے میں تیرہ سالہ دلت نابالغ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کو ضمانت دینے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے اور ملزم کو خودسپردگی کرنے اور جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اترپردیش کے للت پور ضلع کے تھانے میں تیرہ سالہ دلت نابالغ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کے ملزم تھانہ انچارج کو ضمانت دینے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے اور ملزم کو خودسپردگی کرنے اور جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت عظمیٰ کا یہ حکم نابالغ لڑکی کی والدہ کی درخواست پر آیا ہے جس نے ہائی کورٹ کے ملزم کو ضمانت دینے کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔
جسٹس اے ایس جسٹس بوپنا اور جسٹس سنجے کمار کی ڈویژن بنچ نے کہا، "یہ ایک بہت سنگین صورتحال ہے جہاں اجتماعی عصمت دری کا شکار ہونے والی ایک لڑکی انصاف کے حصول کے لیے تھانے پہنچی اور الزام یہ ہے کہ اسٹیشن انچارج نے اس کی تھانے میں عصمت دری کی۔
“عدالت نے ملزم کو مشروط ضمانت دینے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو سرسری نظر سے دیکھنے کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر، ہمیں ملزم کو ضمانت دینے کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کوئی وجہ یا منطق نظر نہیں آتی۔“
ڈویژن بنچ نے ریاست جھارکھنڈ بمقابلہ سندیپ کمار کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں بھی عدالت نے ایک پولیس اہلکار کے تئیں کوئی نرمی نہیں برتی، جس پر ایک عام آدمی کے ساتھ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا حا، جب کہ وہاں کوئی گھناؤنا جرم بھی نہیں تھا۔
ڈویژن بنچ نے اپنے 3 مئی کے حکم میں کہاکہ”للت پور کیس میں ایک خوفناک صورتحال ہے جہاں نابالغ اجتماعی عصمت دری کا شکار انصاف کی تلاش میں تھانے پہنچی اور ملزم اسٹیشن انچارج نے دوبارہ پولیس اسٹیشن میں ہی اس کے ساتھ وہی گھناؤنا جرم کیا۔“
پولیس افسر کی درخواست ضمانت مسترد ہونے کو فوجداری نظام انصاف کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے بچپن بچاؤ آندولن کے سینئر وکیل اور وکیل ایچ ایس پھولکا نے کہاکہسپریم کورٹ نے بہت واضح پیغام دیا ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے پولیس اہلکار خود جرائم میں ملوث پائے گئے تو ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
اس سے قبل ایسوسی ایشن فار والنٹری ایکشن نے آرٹیکل 32 کے تحت ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کو نافذ کرنے میں حکومتی حکام کی مکمل ناکامی کو اجاگر کیا گیا تھا۔ درخواست میں جنسی استحصال سے متعلق مقدمات کے التوا اور متاثرین کے قانونی حقوق سے سمجھوتہ کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔
عرضی میں دلت نابالغ لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس معاملے میں پانچ ماہ تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔
پانچ ماہ بعد ان مجرموں نے لڑکی کے ساتھ دوبارہ اجتماعی عصمت دری کی۔ اس کے بعد جب لڑکی رپورٹ درج کرانے تھانے پہنچی تو پولیس ایف آئی آر درج کرنے کا اپنا بنیادی فرض ادا کرنے میں ناکام رہی۔ اتنا ہی نہیں تھانہ انچارج نے متاثرہ کے ساتھ تھانے میں زیادتی کر کے اس کے درد میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ اس کے بعد متاثرہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کو مسلسل دھمکیاں ملتی رہیں اورانھیں ہراساں کیا جاتا رہا۔
ان غیر انسانی مظالم کی وجہ سے بچی کی تعلیم متاثر ہوئی اور وہ 10 ماہ تک اسکول نہ جا سکی۔ بچپن بچاؤ آندولن کی اس درخواست کے بعد متاثرہ کو ایک بورڈنگ اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں وہ ایک بار پھر سے تعلیم شروع کرنے کے قابل ہوگئی۔یہ اطلاع بچپن بچاؤ آندولن کی ایک پریس ریلیز میں دی گئی۔