28ستمبر 1908 کا دن فرخندہ بنیادشہر حیدرآبادمیں قہر خداوندی کی یاد دلاتا ہے: سید ایوب پاشاہ قادری
اس حادثے سے متاثر ہو کر اردو اور تیلگو کے کئی شعراء کئی نظم اور گیت لکھے 1908 کی طغیانی کی تباہ کاریوں سے متعلق کئی خوفناک واقعات اور کہانیوں کی طرح سینہ بہ سینہ آج تک دہرائی جاتی ہے ۔
روئے زمین پر جہاں انسان اپنے حدود سے تجاوز کر کے قانون قدرت کے خلاف زندگی گزارتا ہے جہاں انسان انسان کا دشمن ہوکر دنیا کی عیش و عشرت میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے جسکو اپنے مالک حقیقی کے وجود کا بھی خیال نہیں رہتا تو پھر اس علاقے میں قہر خداوندی کا نزول ہونا لازمی ہو جاتا ہے ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے ایسا ہی ایک ہولناک دن 28 ستمبر 1908 کا تھا جہاں قہر خداوندی قیامت صغری کا منظر پیش کر رہا تھا۔
رد موسی کی طغیانی 117سال قبل واقع ہوئی اج بھی اس دن کو یاد کیا جاتا ہے نواب میر محبوب علی خان کے انتقال سے تین سال قبل حیدراباد کی کو ایک تباہ کن طغیانی کا سامنا کرنا پڑا ایک اندازے کے مطابق ابادی کا ایک مربع میل کا علاقہ ندی کی جانب شمال اور نصف مربع میل جنوب طغیانی سے مکمل طور پر تباہ ہو گیا تھا۔
19 ہزار مکانات تباہ ہو گئے اور تقریبا 80 ہزار افراد بے گھر ہو گئے اس وقت کے تین کروڑ روپیے کا مال و اسباب برباد ہونے کا اندازہ لگایا اور جانی نقصان دس تا 15 ہزار کا تھا جو لوگ موت سے بچ گئے تھے انکا زندہ رہنا مشکل تھا۔
اس حادثے سے متاثر ہو کر اردو اور تیلگو کے کئی شعراء کئی نظم اور گیت لکھے 1908 کی طغیانی کی تباہ کاریوں سے متعلق کئی خوفناک واقعات اور کہانیوں کی طرح سینہ بہ سینہ آج تک دہرائی جاتی ہے ۔
رمن راج سکسینہ نے اپنی کتاب تذکرہ دربار حیدراباد میں اس کا تفصیلی خاکہ کھینچا ہے شہنشاہ روباعیات حضرت امجد حیدرآبادی نے اس سانحہ کو قیامت صغری کے عنوان سے اشعار میں بیان کیا اسی سانحے میں امجد حیدرآبادی کی اہلیہ محبوب النساء بیٹی اعظم النساء اور والدہ صوفیا بیگم طغیانی کی نذر ہو گئے عثمانیہ دواخانہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے چمن میں ایک املی کا درخت آج بھی موجود ہے جس پر چڑھ کر ڈیڑھ سو انسانوں نے اپنی جان بچائی تھی۔
آج بھی ان کے اہل خاندان 28ستمبر کو اس درخت کے پاس جمع ہو کر اس طغیانی کی تباہ کاریوں کا تذکرہ کرتے ہیں نواب میر محبوب علی خان جو رعایا پرور بادشاہ تھے اپنی عوام کے لیے اپنے محل کے دروازے کھول دیے اور سینکڑوں ضرورت مندوں کے خو دو نوش کا انتظام اپنی نگرانی میں کروایا 1908 میں لٹے پٹے لوگوں کی شہر کی عوام نے ہر طرح سے مدد کی اپنے گھروں میں پناہ دی اپنی روٹی سے مصیبت زدہ لوگوں کو روٹی دی یہاں ہمارے لیے ایک غور و فکر کا مقام ہے کہ یہ آفات سماوی یہ قہر خداوندی کی ناگہانی صورتحال کیوں پیدا ہوئی اس کے اسباب کیا ہیں جب کبھی انسان اپنے مالک حقیقی کے احکام سے روگردانی کرتا ہے اور انسان اپنے اپ کو سب سے افضل سمجھ کر دوسروں کو حقارت سے دیکھتا ہے جہاں انسانیت کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے انسان اپنے مقصد حیات کو چھوڑ کر صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے انسان کا دشمن بن جاتا ہے یہی وہ اسباب ہے جس سے انسان قہر خداوندیکواپنی طرف راغب کرتا ہے اور پھر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے یاد رہے ہمارےملک میں 2019 اور 20 کا دور کیا۔
قہر خداوندی سے کم رہا اس قہر خداوندی میں بلا تفریق مذہب سب کے سب اس کی زد میں اگئے اور انسان اپنے رشتے ناتے کو بھول کر صرف اپنی ذات میں سمیٹ گیا ہزاروں کرونا جیسے قہر خداوندی کی وجہ لقمہ اجل بن گئے 1908 کا قہر اور 2019 کا قہر تو اپنے وقت پر تھم گیا لیکن 2014 سےاج تک باطل طاقتیں اپنی انسانیت سے دشمنی کے ناپاک ارادوں کو کامیاب بنانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ہمارے ملک کے ہر باشندے کو یہ سمجھنا چاہیے کیا یہ 2014 سے اج تک کا عرصہ کیا قہر خداوندی سے کم ہے یہاں انسان خود انسان کا دشمن بنا ہوا ہے ہمارے ملک کے ہر باشندے کو چاہیے کہ اس ہولناک واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا اپنا جائزہ لے کر اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنے مقصد حیات کو اس طرف گامزن ہو کر اپنے مالک کی خوشنودی حاصل کرنے کی فکر کریں،