دہلی

وقف ترمیمی ایکٹ پر ملک بھر کی نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز،15 ستمبر کو آئے گا فیصلہ

عرضی گزاروں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ایکٹ کی دفعات کو غیر آئینی قرار دے یا ایسی ہدایات جاری کرے جو موجودہ حالات کے مطابق مناسب ہوں۔ محمد جمیل مرچنٹ اس سے قبل مہاراشٹر کے وزیر اور دیگر شخصیات کے خلاف بھی مذہبی و سماجی نوعیت کی درخواستیں دائر کر چکے ہیں۔

ممبئی: سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف فیصلہ 15 ستمبر کو متوقع ہے۔ اس معاملے میں سماجی کارکن محمد جمیل مرچنٹ سمیت دیگر اہم شخصیات کی جانب سے دائر کی گئی عرضیوں پر سپریم کورٹ نے سماعت کی ہے۔ عرضی گزار پُرامید ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔

متعلقہ خبریں
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
شیوسینا میں پھوٹ‘ اسپیکر کا 10 جنوری کو فیصلہ
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز

مرکزی حکومت کی جانب سے اس نئے ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک بھر میں سخت تنقید کی گئی اور کئی افراد نے اسے چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کیں۔ عدالت نے ان میں سے صرف پانچ درخواستوں کو سماعت کے لیے قبول کیا، جن میں جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری محمد فضل الرحیم، منی پور کے ایم ایل اے شیخ نورالحسن، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی، اور محمد جمیل مرچنٹ شامل ہیں۔

محمد جمیل مرچنٹ ممبئی کے رہائشی ہیں اور مہاراشٹر کی جانب سے اس ایکٹ کو چیلنج کرنے والے پہلے غیر سیاسی عرضی گزار ہیں۔ وہ عوامی فلاحی کاموں میں سرگرم ہیں اور دو مساجد کے ذمہ دار بھی ہیں۔ جمیل مرچنٹ نے سماعت کے بعد اپنے ردعمل میں کہا کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اہم شخصیات کے درمیان ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 نے پرانے وقف ایکٹ 1995 کی جگہ لے لی ہے اور اسے “UMEED” یعنی Unified Management Empowerment Efficiency and Development Act 2025 کے طور پر بھی جانا جا رہا ہے۔ نئے قانون کے تحت وقف بورڈ میں غیر مسلم افراد کی نمائندگی متعارف کرائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بورڈ کو یہ اختیار نہیں رہے گا کہ وہ کسی جائیداد کے وقف ہونے کے بارے میں انکوائری کرے یا فیصلہ کرے، یہ اختیارات اب مرکزی حکومت کے پاس ہوں گے۔

عرضی گزاروں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ایکٹ کی دفعات کو غیر آئینی قرار دے یا ایسی ہدایات جاری کرے جو موجودہ حالات کے مطابق مناسب ہوں۔ محمد جمیل مرچنٹ اس سے قبل مہاراشٹر کے وزیر اور دیگر شخصیات کے خلاف بھی مذہبی و سماجی نوعیت کی درخواستیں دائر کر چکے ہیں۔

سپریم کورٹ کی 15 ستمبر کی سماعت سے قبل ملک بھر میں اس معاملے پر سب کی نظریں مرکوز ہیں اور فیصلہ آنے کے بعد قانونی اور سماجی حلقوں میں سنسنی پیدا ہونے کا امکان ہے۔