مشرق وسطیٰ

اسرائیل کی ترک صدر طیب اردگان کو صدام حسین جیسا حال کرنے کی دھمکی

ترک صدر طیب اردگان نے اسرائیل کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکیہ دوسرے تنازعات کی طرح غزہ کے تنازعہ پر بھی مداخلت کرتے ہوئے فوجی دستوں کے ساتھ اسرائیل میں داخل ہوسکتا ہے۔

استنبول: ترک صدر طیب اردگان نے اسرائیل کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکیہ دوسرے تنازعات کی طرح غزہ کے تنازعہ پر بھی مداخلت کرتے ہوئے فوجی دستوں کے ساتھ اسرائیل میں داخل ہوسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں
اسرائیلی فوج کی خان یونس میں بمباری، فلسطینی قبرستان میں پناہ لینے پر مجبور
رجب طیب اردغان کے 15مشیر مستعفی
نیتن یاہو نے کم وسائل میں بھی لڑنے کا اعلان کیا
پرائمری انتخابات، بائیڈن کو اسرائیل۔غزہ جنگ پر مخالفت کا سامنا
غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 40 افراد شہید

یہ بات انہوں نے ترک حکمراں پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی، ترک صدر رجب طیب اردگان نے اسرائیل کے خلاف اپنی بیان بازی میں مزید شدت پیدا کر دی ہے اور اشارہ دیا ہے کہ ترکی فلسطینیوں کی حمایت میں مداخلت کرسکتا ہے جیسے کہ اس نے دیگر تنازعات میں کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردگان نے کہا کہ کوئی کام ایسا نہیں ہے جو ہم نہیں کر سکتے۔ ترکیہ اسرائیل میں بھی فوجی دستوں کے ساتھ داخل ہوسکتا ہے جیسے ماضی میں لیبیا اور آزربائیجان کے علاقے نگورنو کاراباخ میں داخل ہوا تھا۔

ترک صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ اقدام اٹھانے کیلئے مضبوط ہونے کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل،فلسطین کے ساتھ مزید جارحیت کا مرتکب نہ ہوسکے۔دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ‘ایکس’پر رجب طیب اردوان کے بیان کا جواب دے دیا۔

اپنے پیغام میں ان کا کہنا ہے کہ اردوان صدام حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں انہیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں کیا ہوا تھا اور یہ کیسے ختم ہوا تھا۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بعد اردوان نے ترکی کے سفیر کو واپس بلا لیا اور اسرائیل کے ساتھ تجارت بھی معطل کر دیے ہیں اس اقدام کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو پر نسل کشی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

غزہ جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد ترکیہ مظلوم فلسطینیوں کیلیے غزہ میں انسانی امداد باقاعدگی سے روانہ کررہا ہے اور زخمیوں کو طبی علاج کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ وہ ترکی میں علاج کروا سکیں۔یاد رہے کہ اس جنگ سے قبل ترکی اور اسرائیل ایک دہائی کی کشیدگی کے بعد اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں کر رہے تھے۔

a3w
a3w