شمالی بھارت

نفرت کی سیاست کرنے والے ملک کے وفادار نہیں:مولانا ارشد مدنی

مولاناارشد مدنی نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ قوموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امتحان کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں مگرزندہ قومیں مایوسی کا شکارنہیں ہوتیں بلکہ وہ اس طرح کے ماحول میں بھی اپنے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نکال لیتی ہیں۔

نئی دہلی:کشمیر سے منی پور تک خوف و ہراس کے ماحول پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک اس وقت خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہا ہے اور اس ماحول کو ختم نہ کیا گیا تو ملک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔

متعلقہ خبریں
اظہرالدین، وہ مایہ ناز کھلاڑی جو کسی تعارف کا محتاج نہیں
جیش کی ذیلی تنظیم نے کشمیر دہشت گرد حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی
منی پور کی صورتحال پر وزارت ِ داخلہ میں کل اہم میٹنگ
صدر جمہوریہ کا آج دورہ، نلسار کے کانوکیشن میں شرکت متوقع
جموں و کشمیر میں جیش محمد کے کمانڈر کی 6 جائیدادیں ضبط: این آئی اے

یہ بات انہوں نے جمعیۃ علماء راجستھان کے اجلاس عام میں جاری ایک پیغام میں کہی انہوں نے کہاکہ ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کاخواب نہیں دیکھا تھا جس میں نفرت، خوف و دہشت کے سائے میں ملک کے عوام رہتے ہوں۔

 انہوں نے کہاکہ حکمرانوں نے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعاربنالیا ہے لیکن میں یہ واضح کردینا چاہتاہوں کہ حکومت ڈر اور خوف سے نہیں بلکہ عدل و انصاف سے چلاکرتی ہے۔

مولانا مدنی نے نفرت مٹانے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا۔ نفرت کا جواب نفرت نہیں محبت ہے، آج کے ماحول میں محبت ہی ایک ایساکارگر ہتھیار ہے جس سے ہم نفرت کو شکست دے سکتے ہیں۔

 ہم نے ہرہر موقع پر وطن سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دیا ہے، یہ ہماراملک ہے، آزادی ہمیں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے، ایسے میں ہمارایہ فرض ہے کہ ہم ان مٹھی بھر فرقہ پرست عناصرکے ہاتھوں اپنے بزرگوں کی عظیم قربانیوں کوضائع نہ ہونے دیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم امن اورمحبت کے داعی بن جائیں اس لیے ہمیں اپنی بیاہ شادیوں اور دیگر تقریبات میں برادرانِ وطن کو بلانا چاہیے، اسی طرح ان کی خوشی اور غم میں اپنا مذہبی فرض سمجھ کر، وہ بلائیں یا نہ بلائیں، شریک ہونا چاہئے۔ آپ کا یہ کردار پرانی تاریخ کو زندہ کرنے میں بڑا قیمتی ثابت ہوگا۔

 وہ لوگ ہرگز ملک کے وفادارنہیں ہوسکتے جو نفرت کی آگ سے ملک کے امن وامان اوراتحادکوتباہ وبربادکرنے پر تلے ہیں، بلکہ ملک کے سچے وفادار وہ ہیں جو ایسے صبرآزمادورمیں بھی امن واتحادکاپیغام دیکر دلوں کو جوڑنے کی بات کررہے ہیں۔

مولاناارشد مدنی نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ قوموں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ امتحان کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں مگرزندہ قومیں مایوسی کا شکارنہیں ہوتیں بلکہ وہ اس طرح کے ماحول میں بھی اپنے لئے آگے بڑھنے کا راستہ نکال لیتی ہیں۔

 ہم ایک زندہ قوم ہیں اس لئے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا، ہمیں دوراندیشی اورسوجھ بوجھ سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ الورکا یہ علاقہ میوات سے ملاہواہے، جولائی کے مہینہ میں نوح اوراس کے آس پاس کے علاقوں میں جو کچھ ہوا اس سے آپ سب کماحقہ واقف ہیں،آج کی ترقی یافتہ دنیامیں اس طرح کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض ایسی طاقتیں موجودہیں جو امن واتحادکی دشمن ہیں، ورنہ شوبھایاتراجیسے مذہبی پروگرام میں تلواراور اسلحہ لیکر چلنے اور اشتعال انگیزی کی کیا ضرورت تھی۔

 اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا مقصدو شوبھایاترانکالنانہیں تھا بلکہ اس علاقہ کے امن واتحادکوسبوتاژکرنا تھا، جبکہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت، رواداری، محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے اس لیے جو لوگ مذہب کا استعمال نفرت اور تشدد برپا کرنے کے لئے کرتے ہیں وہ اپنے مذہب کے سچے پیروکار نہیں ہوسکتے ہیں۔

بہرحال دونوں طرف سے جو ہوااچھا نہیں ہوا، جمعیۃعلماء ہند اپنے قیام کے دن سے ہی امن واتحاداورفرقہ ورانہ خیرسگالی کی پیامبررہی ہے، کیونکہ اس کا مانناہے کہ امن واتحادکے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا، فرقہ پرستی اورمذہبی شدت پسندی امن واتحادکی ہی نہیں ترقی کی بھی دشمن ہے۔

فسادبرباکرنے والوں کو یہ خوش فہمی ہوسکتی ہے کہ وہ ایک مخصوص فرقے کو نقصان پہنچاکر نفسیاتی طورپر انہیں کمزورکررہے ہیں لیکن یہ ان کی خام خیالی ہے، فسادسے کسی فرقہ یابرادری کا نقصان نہیں ہوتابلکہ ملک کی ترقی اورمعیشت کو نقصان پہنچتاہے۔

انہوں نے کہا کہ میوات کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب 80 فیصدہے اوراہم بات یہ ہے کہ فسادکے دوران اکثریت میں ہونے کے باوجودانہوں نے اپنے کسی غیر مسلم پڑوسی کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

 بلکہ ہمارے پاس تواطلاعات یہ بھی ہیں کہ بہت سے گاؤں میں مسلمانوں نے مندروں کے اردگردرات رات بھر پہرادیا تاکہ کوئی شخص ان مندروں کو کوئی نقصان نہ پہنچاسکے، انتہائی امیدافزابات یہ بھی ہے کہ میوات علاقے کے بہت سے غیر مسلموں نے اخباری نمائندوں اورٹی وی چینلوں سے گفتگوکرتے ہوئے واضح طورپر یہ کہا کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود یہاں انہیں کبھی کسی طرح کا ڈراورخوف محسوس نہیں ہوا، تمام لوگ یہاں امن و اتحاد اور باہمی میل ملاپ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

 یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک کی اکثریت اب بھی امن پسند ہے اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلاکر تشددبرپاکرنے والے مٹھی بھرلوگ ہیں جو ملک میں جگہ جگہ اپنی شرانگیزیوں اورحرکتوں سے امن وامان کی فضاکو خراب کرتے رہتے ہیں۔

مولانا مدنی نے ہریانہ اور راجستھان کی کھاپ پنچایتوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ یقینا یہ بڑی ناانصافی ہوگی اگر ہم اس اہم پروگرام میں ہریانہ و راجستھان کی اُن کھاپ پنچایتوں، سماجی تنظیموں، سکھوں اور دیگر لوگوں کا خیرمقدم نہ کریں، جنھوں نے نوح و اطراف میں ہوئے فساد کے بعد مسلمانوں کے لیے پیدا کردہ بحرانی صورتِ حال میں فرقہ وارانہ خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میوات کے مسلمانوں کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ فرقہ پرست طاقتوں کی سازشوں کو بھی بے نقاب کردیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام امن پسند لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس موقع پر اگر وہ کھل کر مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ نہ کرتے تو جو ماحول سازی کی جارہی تھی اس کے اثرات دوسری جگہوں پر بھی مرتب ہوسکتے تھے۔ ان کھاپ پنچائیتوں نے پورے ملک کو امن واتحادکی ایک ایسی راہ دکھائی ہے جس پر آج عمل کرنے کی اشدضرورت ہے۔ انہو ں نے کہاکہ یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ملک کے انصاف پسند حلقوں کی تمام ترکوششوں اورعدلیہ کی جانب سے باربار دی جانے والی ہدایتوں کے باوجوداشتعال انگیزی اورنفرت کو پھیلانے کا مذموم سلسلہ رک نہیں رہاہے۔اس کی ایک بڑی اوربنیادی وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک فرقہ پرستی، اشتعال انگیزی اورنفرت اقتدارکے حصول کا آسان ذریعہ بن گئی ہے۔ یہ ایک خطرناک روش ہے اوراگر اس روش کا خاتمہ نہیں ہواتویہ ایک دن ملک کے اتحاداورسالمیت کے لئے بھی ایک بڑاخطرہ بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علماء راجستھان کے صوبائی اجلاس مولانا مدنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے تھے لیکن پیغام کے ذریعہ انہوں نے اپنی حاضری درج کرائی۔ یہ پیغام مولانا راشد نے پڑھا۔

مفتی محمد معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند نے جمعیۃ علماء ہند کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک کے مسلمانوں پر جب بھی مصیبت آئی یا لائی گئی ہے، جمعیۃ علماء ہند نے آگے بڑھ کر راحت رسانی کے کام کو بلاتفریق و مذہب ملت انجام دیا ہے۔ناظم اصلاح معاشرہ مولانا سید از ہر مدنی نے اصلاح معاشرہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمانوں کا معاشرہ صحیح ہوجائے تو مسلمانوں کے 90فیصد مسائل چٹکیوں میں حل ہوجائیں کیوں کہ صحیح معاشرہ کے بغیر اچھے افراد پیدا نہیں کرسکتے۔ جمعیۃ علماء راجستھان کے جنرل سکر یٹری مولانا محمد راشد نے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ یہ اجلاس تاریخی ثابت ہوگا اوریہ اجلاس محض ایک اجلاس نہیں بلکہ لائحہ عمل ہے جس کے سہارے ہم ملک و ملت کی بے لوث خدمت کریں گے اور ان کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش رہیں گے۔یہ اجلاس عام مولا نا حسن محمود صدر جمعیۃ علماء راجستھان کی صدارت میں منعقد ہوا۔