حیدرآباد

ٹمریز سکریٹری کے پی اے کی خاتون پرنسپال سے بدکلامی۔ پرنسپال کو ہیڈ کوارٹر طلب کرلیا گیا

زمانہ قدیم میں باربرداری کے لئے بیل گاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں اور ان بیل گاڑیوں کے ساتھ اکثر ایک کتا ہوا کرتا تھا جو عموماً بیل گاڑی کے نیچے چلا کرتاتھا اور اس کویہ گمان رہتا تھا کہ وہی بنڈی پر لدے مال کو لاد رہا ہے۔

حیدرآباد: زمانہ قدیم میں باربرداری کے لئے بیل گاڑیاں استعمال کی جاتی تھیں اور ان بیل گاڑیوں کے ساتھ اکثر ایک کتا ہوا کرتا تھا جو عموماً بیل گاڑی کے نیچے چلا کرتاتھا اور اس کویہ گمان رہتا تھا کہ وہی بنڈی پر لدے مال کو لاد رہا ہے۔

ایسا ہی کچھ احوال تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی میں کام کرنے والے بے سود ملازمین کا ہے جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ادارہ ان ہی کی وجہ سے چل رہا ہے۔

اعلیٰ عہدیداروں کی شخصی معاونت کے لئے خدمات پر حاصل کردہ لوگ اپنے ارباب کے ماتحتین کو احکامات صادر کرتے ہوئے دیکھ کر وہ خود بھی اپنے سے اعلیٰ رتبہ کے عہدیداروں کو احکامات جاری کرنے لگے ہیں اور ان کی کہی ہوئی باتیں ماننے سے انکار کرنے والوں کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی سے پیش آرہے ہیں بلکہ ان کو دھمکیاں بھی دینے لگے ہیں۔

محکمہ پولیس کے ایک ملازم کو ٹمریز کی سکریٹری کی شخصی معاونت کے لئے متعین کیا گیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس ملازم کی خدمات کی محکمہ پولیس سے ٹمریز کو منتقلی ہی قانون کے مطابق نہیں کی گئی ہے مگر چونکہ وہ ٹمریز کی سکریٹری کی معاونت کررہا ہے اس لئے وہ خود کو سیاہ و سپید کا مالک سمجھ بیٹھا ہے۔

ملازمین اور دیگر پر رعب ڈالنے کے لئے یہ بھی باور کرواتا ہے کہ وہ رچہ کنڈہ پولیس کی اسپیشل برانچ میں اپنی خدمات انجام دے چکا ہے۔ ادارہ کے امور میں اس ملازم کی مداخلت کچھ اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ وہ اقامتی کالج و اسکول گرلز کی پرنسپال لاونیا نے سکریٹری ٹمریز کو ایک وائس مسیج بھیج کر ان کے پی اے محمد آصف حسین کی شکایت کی کہ وہ ارکان اسمبلی کے پی ایز سے مل کر روزانہ ایک غیر اقلیتی طلباء کو داخلہ دینے کی سفارش کررہے ہیں اور ان طلبا کی درخواستوں پر سکریٹری ٹمریز کی دستخط بھی نہیں ہوتیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ خیریت آباد میں صداقتناموں کی تصدیق کے سلسلہ میں مصروف تھیں کہ ایک رکن اسمبلی کے پی اے نے اسکول پہنچ کر عملہ کے ساتھ بدتمیزی کی اور اس نے ٹمریز کی سکریٹری کے پی اے سے انہیں فون کروایا۔ لاونیا میڈم نے بتایا کہ آصف نے غیر پارلیمانی الفاظ کرتے ہوئے ان کے ساتھ فحش کلامی کی ہے اور سکریٹری سے ان کی شکایت کرتے ہوئے انہیں معطل کردینے کی بھی دھمکی دی ہے۔

اس پرنسپال نے بتایا کہ وہی نہیں بلکہ کئی خاتون پرنسپالس‘ آصف کی بدکلامی سے عاجز آچکے ہیں اور اب ان میں برداشت و تحمل کا مادہ نہیں رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پرنسپال کی جانب سے سکریٹری کو وائس مسیج روانہ کئے تین دن گزرچکے ہیں مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ الٹااس پرنسپال کوآر ایل سی حیدرآباد‘ وجئے کمار کے نام سے ایک پیغام موصول ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ سمیت چار پرنسپالس کو شکایات اور تبادلوں کے معاملہ میں ہیڈ آفس میں کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

انہیں کل 11 بجے دن دفتر میں رپورٹ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ آر ایل سی کے نام سے جو پیغام انگریزی میں ارسال کیا گیا ہے اس میں لغت کی کئی غلطیاں ہیں‘ جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ریجنل لیول کنسلٹنٹ کی قابلیت کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے احکام کی روشنی میں تدریسی عملہ کو صرف غیر تدریسی ایام میں غیر تدریسی اوقات میں ہی غیر تدریسی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔

اس اعتبارسے اسکول او رکالج کی پرنسپال کو ہی ہیڈکوارٹر طلب کرلیا جانا سپریم کورٹ کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے اور ارباب ٹمریز پر اس معمولی فرد کا کس قدر اثر و رسوخ ہے، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملہ کو انٹرنل کامپلینٹس کمیٹی۔ ویمن سے رجوع کیا جانا چاہیے۔

a3w
a3w