وقف بل زمینوں پر قبضے کو روکے گا اور کروڑوں مسلمانوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گا: کرن رجیجو
مسٹر رجیجو نے کہا کہ اب وقف بورڈ کا مرکزی ڈیٹا بیس ہوگا اور تمام وقف املاک کو مکمل طور پر رجسٹر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں وقف بورڈ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جائیداد ہے لیکن غریبوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔

نئی دہلی: اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں وقف (ترمیمی) بل 2025 اور مسلم وقف (منسوخ) بل 2025 پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے نہیں لائے گئے ہیں بلکہ وقف بورڈ کی جوابدہی، شفافیت اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے لائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بل نے ملک میں ایک نئی صبح لائی ہے اور اسی لیے اس ایکٹ کو ‘امید’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں کلکٹر سے لے کر بورڈ تک ہر فرد کے کردار کو شفافیت کے ساتھ جوابدہ بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد سب کو بااختیار بنانا ہے۔ اس سے جہاں زمینوں پر قبضے کے من مانی عمل کو روکا جائے گا وہیں اس سے لاکھوں غریب مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی۔
مسٹر رجیجو نے کہا کہ اب وقف بورڈ کا مرکزی ڈیٹا بیس ہوگا اور تمام وقف املاک کو مکمل طور پر رجسٹر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں وقف بورڈ کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ جائیداد ہے لیکن غریبوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ آج سے پہلے اتنے غورو خوض کے بعد کوئی بل نہیں لایا گیا ہے۔ اقلیتی امور کی وزارت نے اس بل کا مسودہ تیار کرنے سے پہلے پورے ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت کی تھی۔ اس کے بعد 284 تنظیموں اور تمام اسٹیک ہولڈرز نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے میمورنڈم پیش کیا اور 97 لاکھ لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مشترکہ کمیٹی نے دس شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں سے بات کی۔ اس طرح اس بل پر ایک کروڑ سے زیادہ تجاویز موصول ہوئی ہیں۔
انہوں نے ان الزامات کو مسترد کیا کہ یہ بل غیر آئینی اور مسلمانوں کے حقوق چھیننے والا ہے اور کہا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی مداخلت نہیں ہوگی۔ متولی جو وقف بورڈ کا انتظام کرتا ہے وہ مسلمان ہی رہے گا۔
مسٹر رجیجو نے کہا کہ اس بل کو لانا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ 5 مارچ 2014 کو لوک سبھا انتخابات کے لئے ماڈل ضابطہ اخلاق کے نفاذ سے عین قبل کانگریس کی قیادت والی حکومت نے دارالحکومت دہلی میں 123 اہم جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کیا تھا اور ان سے متعلق مقدمات عدالت میں زیر التوا ہونے کے باوجود انہیں وقف بورڈ کے حوالے کر دیا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً تشکیل دی گئی تینوں کمیٹیوں کی سفارشات کو موجودہ بل میں شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کانگریس کے دور میں بنائی گئی کمیٹی بھی شامل ہے۔ کانگریس پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دور میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کرا سکی جبکہ مودی حکومت نے یہ جرأت دکھائی ہے۔
مسٹر رجیجو نے کہا کہ مجوزہ بل میں تمام طبقات جیسے شیعہ، سنی، پسماندہ وغیرہ کو نمائندگی دے کر وقف بورڈ کوشمولیاتی بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ بورڈ میں دو مسلم خواتین کی نمائندگی کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے ان الزامات کو بھی مسترد کردیا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کی اکثریت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ بل میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرنے سے پہلے متعلقہ دستاویزات بورڈ کو دکھانے ہوں گے صرف کہہ دینے سے کام نہیں چلے گا۔ یہ غلط استعمال کو روک دے گا۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ ٹریبونل کی مدت مقررہ ہوگی۔ اس وقت ٹربیونل میں 31 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، اس لیے اب اس میں اراکین کی تعداد بڑھا کر تین کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اپیل کا حق کھل گیا ہے اور انصاف نہ ملنے پر لوگ اعلیٰ عدالت میں جا سکتے ہیں۔
موجودہ کمیٹی کے کام کا کانگریس کے دور حکومت میں تشکیل دی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے کام سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کمیٹی کے 13 ارکان تھے اور اس کے 22 اجلاس ہوئے، موجودہ کمیٹی کے 31 ارکان ہیں اور اس بار 36 اجلاس ہوئے، اس وقت 18 تنظیموں نے اپنے خیالات پیش کیے جبکہ اس بار 284 تنظیموں نے اپنے خیالات پیش کیے، اس وقت م32 میمورنڈم موصول ہوئے چکے اب 90 لاکھ سے زیادہ ملے۔
انہوں نے کہا کہ سال 1976 میں تشکیل پانے والے کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں وقف کے کام کاج میں بہتری کی ضرورت کی نشاندہی کی تھی۔ اس کے بعد 2006 میں سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی وقف بورڈ کو مضبوط کرنے اور اسے ڈیجیٹل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقف کے پاس اس وقت 4.9 لاکھ جائیدادیں رجسٹرڈ تھیں اور اس کی سالانہ آمدنی 160 کروڑ روپے تھی۔
رپورٹ کے مطابق اگر اس کا مؤثر طریقے سے انتظام کیا جاتا تو اس سے 12 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہونی چاہیے تھی۔ اب وقف کے پاس 8.7 لاکھ کی جائیداد ہے اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سے کتنی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ریاستی وقف بورڈ کو وسیع بنائے جانے کی ضرورت بتائی اور کہا کہ اس میں جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کو شامل کیا جانا چاہئے۔
رجیجو نے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت میں اقلیتی امور کے وزیر کے رحمان خان نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی صدارت کی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وقف بورڈ کے پاس مناسب انفراسٹرکچر نیٹ ورک نہیں ہے۔
اس کے علاوہ افرادی قوت اور فنڈز کی بھی کمی ہے۔ وقف میں ہر چیز کا انحصار متولی یعنی منیجر پر ہوتا ہے ۔ اس کمیٹی نے وقف بورڈ کو ڈیجیٹلائز کرنے اور میوٹیشن ریونیو ریکارڈ کو ڈیجیٹائز کرنے کی بات بھی کہی۔
انہوں نے ارکان سے اپیل کی کہ وہ وقف بورڈ کو طاقتور بنانے کے لئے تجاویز دیں۔