دہلی

وقف املاک سے متعلق یوگی آدتیہ ناتھ کا بیان حقیقت سے بعید اور گمراہ کن:محمود مدنی

مولانا مدنی نے بتایا کہ وقف املاک کا مقصد ہمیشہ سے معاشرتی فلاح و بہبود رہا ہے اوران کا استعمال اسلامی تعلیمات کے مطابق مساجد، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور یتیم خانوں کی تعمیر اور ضرورت مندوں کی امداد کے لیے ہوتا ہے۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ وقف بورڈ کا قیام 1954 کے وقف ایکٹ کے تحت عمل میں آیا ہے ۔

نئی دہلی: اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے وقف املاک سے متعلق بیان پر جمعیۃ علماء ہند (م) کے صدر مولانا محموداسعد مدنی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا بیان نہ صرف گمراہ کن بلکہ حقیقت سے بعید ہے۔

متعلقہ خبریں
آرام گھر فلائی اوور کا چیف منسٹر کے ہاتھوں افتتاح
بہرائچ تشدد، فوری کارروائی کی جائے: پرینکا گاندھی
وقف ترمیمی بل 2024، اوقاف کی جائیدادوں کے خاتمہ کا آغاز : محمد مشتاق
ممتاز صنعت کار گوتم اڈانی کی چیف منسٹر ریونت ریڈی سے ملاقات
چیف منسٹر کل نومنتخب ٹیچرس میں احکام تقررات حوالے کریں گے

  آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق انہوں نے کہا کہ وقف جائیدادوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے  لیکن یوپی وزیراعلی ٰ یوپی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی دشمن کی جائیداد ہے انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی ٰ نے بیان دیتے ہوئے اپنے آئینی عہدے کی پامالی کی ہے ۔ان کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص اقلیت کے خلاف برسر پیکار ہیں ۔

مولانا مدنی نے بتایا کہ وقف املاک کا مقصد ہمیشہ سے معاشرتی فلاح و بہبود رہا ہے اوران کا استعمال اسلامی تعلیمات کے مطابق مساجد، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں اور یتیم خانوں کی تعمیر اور ضرورت مندوں کی امداد کے لیے ہوتا ہے۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ وقف بورڈ کا قیام 1954 کے وقف ایکٹ کے تحت عمل میں آیا ہے ۔

 اسی بنیاد پر ملک کی بیشتر ریاستوں میں وقف ایکٹ قائم ہیں جن کی نگرانی اور سرپرستی ریاستی حکومتیں کرتی ہیں۔ خود ان کی حکومت کی سرپرستی میں یوپی وقف بورڈ کام کررہا ہے، نیز ایک سینٹرل وقف کونسل بھی ہےجو حکومت ہند کی نگرانی میں چلتا ہے ۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی قانون نے وقف املاک کے تحفظ کے لیے باقاعدہ اور مستحکم نظام قائم کیا ہے ۔ لہذا انھیں اس طرح کا بیان دیتے ہوئے اس کے اثرات و نتائج پر غور کرنا چاہیے ، کیوں کہ ان کا بیان کہ’ وقف بورڈ زمین مافیا ہے، سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ملک کے قانون ، اس کے آئین اور یہاں کی حکومتوں کو اس ’مافیا‘ کا سرپرست بتارہے ہیں اور یہ کہ وقف جائیدادیں اس ملک کا حصہ نہیں ہیں ، بلکہ کسی دشمن کی جائیداد ہے ۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ وقف بورڈ کے باوجود اس ملک میں بڑی تعداد میں وقف کی زمینوں پر سرکاری وغیر سرکاری اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ اس حوالے سے وزارت اقلیتی امور نے 27 نومبر 2024 کو پارلیمنٹ میں تسلیم کیا تھا کہ 58929وقف جائیدادیں تجاوزات کی شکار ہیں۔

 بی جے پی رکن پارلیمنٹ بسواراج بومئی کے سوال کے جواب میں یونین اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ وزارت اور سینٹرل وقف کونسل (سی ڈبلیو سی) کو وقف جائیدادوں کے متعلق مختلف مسائل پر شکایات موصول ہوتی رہتی ہیں، جنہیں متعلقہ ریاستی وقف بورڈز اور حکومتوں کو مناسب کارروائی کے لیے ارسال کیا جاتا ہے۔

مولانا مدنی نے اس بات پر زور دیا کہ وقف کے حوالے سے بہت ساری غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، لیکن ایک ذمہ دار عہدے پر بیٹھے شخص کو ایسے غیر حقیقت پسندانہ بیان سے گریز کرنا چاہیے۔بحیثیت وزیر اعلیٰ ان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ وقف جائیدادوں کو تحفظ فراہم کریں، لیکن ان کے اس طرح کے بیان کے بعد یہ امیدیں معدوم ہو گئی ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ کہنا کہ وقف کی زمینیں واپس لے کر غریبوں کے لیے مکان اور ہسپتال بنائے جائیں گے، نہ صرف سیاسی دعویٰ ہے، بلکہ اس میں وقف کے اصل مقصد کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ وقف کی زمینیں ہمیشہ سے غریبوں، یتیموں اور مستحق افراد کے فائدے کے لیے وقف کی جاتی رہی ہیں،اور ان کا استعمال ان فلاحی مقاصد کے لیے ہونا چاہیے ۔

انھوں نے حکومت کو متوجہ کیا کہ وہ وقف کے مسائل پر آئینی اور قانونی حقوق کا احترام کرےاور ہر ریاست میں قائم وقف بورڈز کو مزید مضبوط بنائے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وقف کی زمینوں کا استعمال اس کے اصل فلاحی مقاصد کے لیے ہو۔