’’آخری دیدار‘‘
خدا خدا کرکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ہم سے دور بہت دور رہنے والے ہمارے قریبی رشتے دار آدھمکے....آتے ہی انہوں نے ہمارے بچوںکو سینے سے لگایا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ان کا یوں رونا ہمیں قطعی پسند نہیں آیا کیوںکہ یہ محض ان کاڈھونگ تھا...
حمید عادل
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
موت بر حق ہے مگر میری گزارش یہ ہے
زندہ انسان کا ، جنازہ نہ اٹھایا جائے
لیکن اس کو کیا کیجیے کہ فی زمانہ حساس اور درد مند دل رکھنے والے انسانوں کا جنازہ وقتاً فوقتاً اٹھتا ہی رہتا ہے … سینے میں دھڑکتا دل اس بات کی ہرگزضمانت نہیں ہوسکتاکہ وہ زندہ بھی ہے ،کیونکہ جس دل میں اوروں کے لیے خلوص اور پیار نہ ہو، تڑپ نہ ہو ، ایثار کا جذبہ نہ ہو ،دل چاہے دھڑکتا رہے لیکن ہم اس کی دھڑکنوں کو اس کی زندگی ہرگزتصور نہیں کر سکتے۔ ایسا دل جس میں صرف اور صرف انا پرستی ہو، خودغرضی ہو، مفاد پرستی ہو،اس کی دھڑکنوں کے شور میں بھی ہمیں موت کے سناٹوں کا گمان گزرتا ہے۔بات جب دل کی چل پڑی ہے تو ہمیں مشکوک حیدرآبادی یاد آنے لگے ہیں جواکثر فرماتے ہیں کہ آج کا دور قلب پرحملوں کا دور ہے ، قبل اس کے کہ ہم قلب پر حملے کی بدولت مرجائیں ، بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے دل ہی کو مار ڈالیں ،یعنی اس کی غیر ضروری خواہشات کا گلا گھونٹ دیں۔
کوئی ہے جنازہ پڑھنے والا
میں اپنے دل کو مار بیٹھا ہوں
کبھی عشق میں عاشق و معشوق ایک دوسرے پر مرا کرتے تھے، لیکن اب ایسا عشق کہاں ہے جناب کہ، جس عشق کے لیے کبھی حالیؔ نے کہا تھا :
جیتے جی موت کے منہ میں تم نہ جانا ہرگز
دوستو دل نہ لگانا ،نہ لگانا ہرگز
زندگی بلاشبہ خواہشات کا مجموعہ ہے لیکن کوئی مرتے مرتے بھی اپنی کسی نہ کسی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے ،بقول قتیل شفائی:
آخری ہچکی تیرے زانو پہ آئے
موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
کبھی ہم’’چٹ منگنی ،پٹ بیاہ‘‘ سنا کرتے تھے لیکن آج ’’ چٹ موت،پٹ تدفین‘‘ کا چلن ہے۔ آج کے ترقی یافتہ اور مصروف ترین دور میں ہم دور کے تو دور کے کسی قریبی رشتے دارتک کی موت کا طویل انتظار ہرگزکرنا نہیں چاہتے۔ ہم توبس یہی چاہتے ہیں کہ چاہے کوئی ہو ’’ چٹ موت اور پٹ تدفین ‘‘ کی نذرہوکر رہ جائے ۔ جب کوئی بندہ مرنے میں غیر معمولی ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اوروہ بدنصیب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوتا ہے توپھر اس کے گھر والوں کے نزدیک خوداس کی حیثیت دو کوڑی کی ہوکر رہ جاتی ہے، اور فی زمانہ کوڑیوں کا کوئی مول نہیں ہے۔اگر کوئی ڈاکٹرایسے کسی مریض کے تعلق سے یہ کہہ دے کہ اب مریض کا بچنا محال ہے تو پھر اس کے رشتے دار کمال کی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا علاج ہی بندکر دیتے ہیں کہ مرنے والے کے لیے خواہ مخواہ کیوں مرا جائے؟
ہم نے تو یہاں تک سن رکھاہے کہ ’’ چٹ موت ۔پٹ تدفین ‘‘ کے تحت وفات پانے والے کو، اس کی نافرن اولاد تک بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتی ہے ۔ رشتوں کے اس گرتے معیار کو دیکھ کر ہمارے دل میں یہ خواہش چپکے چپکے انگڑائیاں لینے لگی تھی کہ ہماری موت بھی instantcoffee یا recharge instant کی طرز پر ہو، تاکہ ہمیں گھر والے Instant دفنا سکیں۔ ’’دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘کہ مصداق ہماری دعا اس وقت رنگ لائی جب ہمارے قلب پر شدید حملہ ہوا اور ہم اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ہماری اچانک موت کی خبر سن کر کچھ دل اداس تو کچھ کھل اٹھے کہ چلوہم حمید عادل کی وقت بے وقت کی مزاج پرسی سے بچ گئے…خدا نخواستہ اگرکوئی بیماری طول پکڑتی تو پھرحمیدعادل کی عیادت کی بدولت ہمارا قیمتی وقت، وقت بے وقت ضائع ہوتا رہتا،جس سے گاڑی میں پٹرول کے ساتھ ساتھ سینے میںہمارے دل بھی جلتے رہتے۔ ‘‘
ہمارا اچانک یوں ’’ ٹپک ‘‘ جانا، توقع کے عین مطابق قریبی دوستوں کے علاوہ ہمارے لڑکوں کو بھی خوشی فراہم کر گیا۔ انہیں خوش ہونا بھی چاہیے تھا،کیونکہ ہماری آسان موت ، انہیں بے شمار آسانیاں جو فراہم کر گئی تھی۔یہ ان کی خوشی نہیں تو اور کیا تھی کہ ہمارے لیے نہ صرف معیاری عطریات اور قیمتی کفن کا انتظام انہوں نے کردیاتھا بلکہ قبرستان میں شہر کی معروف شخصیت کے پہلو میں ہماری تدفین کے لیے مہنگے داموں زمین بھی خریدلی تھی… ہم گھر کے ہال میں پڑے پڑے یہ سوچ کر خوش ہورہے تھے کہ اگر ہم معاشی طور پر پریشان کر دینے والی طویل علالت کے بعد وفات پاتے تو یقیناان تمام عنایتوںسے محروم رہ جاتے!
ہمارے آخری دیدار کے لیے سب سے پہلے کلیم کلبلاؔ تشریف لائے، ہمارے نہایت قریبی کہلائے جانے والے کلبلاؔ، ہماری میت سے دور کھڑے فرمانے بلکہ کلبلانے لگے:’’بہت خوددار آدمی تھا حمید عادل… مرتے مرتے بھی اس نے اپنی اسی ادا کو قائم رکھا،دیکھو تو کیسے اچانک منظر سے غائب ہوگیا تاکہ کسی کو کوئی پریشانی نہ ہو۔‘‘کلبلاؔ کی کلبلاہٹ ختم ہوئی تو مشکوک حیدرآبادی نہایت مغموم لہجے میں چہک اٹھے:’’ میرے خیال میں تم حمید عادل کی تعریف میں بخالت سے کام لے رہے ہو ،مرحوم نہ صرف خوددار بلکہ بڑا ہی نیک انسان بھی تھا۔ ایسی اچانک موت تو نیک انسانوں کو ہی آتی ہے ،ورنہ کچھ لوگ مرنے کا نام ہی نہیں لیتے اور مرتے مرتے دوسروں کو بھی مار جاتے ہیں …‘‘
ہم اپنے دوستوں کی ان بے تکی باتوں کو سن کر تڑپ اٹھے کہ یہ کیسا پیمانہ ہے کہ اچانک وفات پانے کی وجہ سے ہم جیسے گنہگار کو بھی نیک گردانا جارہا ہے… حالانکہ نہ کسی کی اچانک موت اس کے نیک ہونے کی ضامن ہے اور نہ ہی طویل علالت کسی کے گنہگار ہونے کا ثبوت …،ہم کچھ بلکہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن بڑے سے بڑا ’’ بڑبولا ‘‘بھی مرنے کے بعد کہاں کچھ بول پاتاہے اور ہم توٹھہرے پہلے ہی سے کم سخن …
جیسے جیسے ہماری موت کی اطلاع عام ہوئی، ہمارے مداح جوق در جوق ہمارے غریب خانے پر اکٹھا ہونے لگے۔ہماری تدفین جو بعد عصرمقرر تھی، بعد مغرب کردی گئی تاکہ کثرت سے لوگ ہمارا ’’آخری دیدار‘‘ کرسکیں… لیکن اندر کی بات یہ تھی کہ ہمارے دور اندیش اور چالاک لڑکے دراصل یہ چاہتے تھے کہ ہمارے گھر کے روبرو دیر تک زیادہ سے زیادہ ہجوم اکٹھا رہے تاکہ محلے والوں پراپنی برتری اور شان بگھاری جائے ۔
دریں اثنا یہ اطلاع ملی کہ ہمارے ایک قریبی رشتے دار جوشہر سے دور بہت دور رہا کرتے تھے، ہمارے آخری دیدار کے لیے تشریف لا رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے ہمارے لڑکوں کو قسم دے رکھی ہے کہ اس وقت تک ہمیں ہرگز ہرگزنہ دفنایا جائے جب تک کہ وہ ہمارا آخری دیدار نہ کرلیں ۔ یہ وہ رشتے دار تھے جنہوں نے زندگی میں کبھی ہماری خبر نہ لی تھی لیکن جب خود ہمیںقبرمیں پہنچانے کا وقت آن پہنچا تووہ دنیا کو یہ جتانے کی کوشش کررہے تھے کہ انہیں ہم سے کس قدر والہانہ محبت ہے۔ ہماری تدفین جوپہلے عصر سے مغرب ہوئی تھی، اب مغرب سے بعدعشا کردی گئی۔ ہم تخت پر ساکت و صامت لیٹے لیٹے بور ہورہے تھے،خدا جھوٹ نہ بلوائے ہم نے زندگی میں کبھی اس طرح پڑا رہنا گوارا نہ کیا تھا، ہم تو حرکت میں برکت ہے پر یقین رکھتے تھے، لہٰذاچھٹی کے دن بھی کوئی نہ کوئی کام یا کسی نہ کسی مصروفیت میں الجھے رہتے تھے۔ ہماری حالت یہ تھی کہ تخت پر پڑے پڑے کمرخودتختہ بن چکی تھی لیکن کسی کوہماری کوئی فکر نہیں تھی… ویسے آج زندوں کی کوئی فکر نہیں کرتا توہماری فکر کیسے کوئی کرتا بھلا ؟یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگاکہ ہمارا انتقال رات دیر گئے چار بجے ہوا تھا،ظہر میں ہماری تدفین کے بارے میں سوچا جارہا تھا لیکن کچھ نام نہاد رشتے داروں کے بے حد اصرار پر،تدفین بعد عصرطے پائی تھی لیکن اس کے بعد ہماری تدفین میںمسلسل تاخیر ہی ہوتی چلی جارہی تھی ۔ ہمارے لڑکے اس شرعی حکم کو یکلخت فراموش کر بیٹھے تھے کہ میّت کو جلد از جلد دفن کردیا جائے، لواحقین کے انتظار میں میت کو یوں ہی رکھنا بہت بْری بات ہے۔ہم چاہتے تھے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ، ہم جیسے گنہگار کا وجود دنیا سے مٹ جائے…اسی دوران دوست احباب اور بہی خواہوں کے مشورے پر ہمیںسڑن سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے خاکی وجود کو فوری سرد خانے کی نذر کردیا گیا۔ یوں تو ہمارے بیشتر معاملات زندگی برف دان کی نذر ہوتے رہے تھے لیکن ہمیں یہ ہرگز پتا نہ تھا کہ مرنے کے بعد خود ہمیں یوںکسی سرد خانے کی نذر کردیا جائے گا۔ اب ہم آپ کوکیا بتائیں کہ سرد خانے کی ٹھنڈک کچھ ایسی غضب کی تھی کہ ہمارا منحنی وجود ٹھنڈ سے تھرتھرانے لگا تھا …لیکن ہماری کسی کو کوئی فکرنہ تھی…دو ایک بار سرد خانے سے اٹھ کر بھاگنے کی حسرت بھی ہمارے دل میں جاگی مگر وہ حسرت محض حسرت ہی بن کر رہ گئی …
خدا خدا کرکے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور ہم سے دور بہت دور رہنے والے ہمارے قریبی رشتے دار آدھمکے….آتے ہی انہوں نے ہمارے بچوںکو سینے سے لگایا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ان کا یوں رونا ہمیں قطعی پسند نہیں آیا کیوںکہ یہ محض ان کاڈھونگ تھا…
عشا کا وقت جیسے جیسے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا تھا، ہم ویسے ویسے خوش ہوئے جارہے تھے کہ چلواب ہمیں بہت جلد کفنایا اور پھر دفنایا جائے گا۔ ہمیںغسل دینے کی تیاریاں ہوہی رہی تھیں کہ ہمارے ایک بہت بڑے مداح جو کسی دوسری ریاست میں مقیم تھے ، انہوں نے ہمارے ولی عہد کو فون کردیا کہ وہ ہمارے آخری دیدار کے لیے حیدرآباد روانہ ہوچکے ہیں ۔موصوف کا کہنا تھا: ایک عرصے سے میری یہ خواہش تھی کہ میں حمید عادل سے ملاقات کروں، ہائے! میری یہ آرزو زندگی میں تو پوری نہ ہوسکی لیکن میں ان کا آخری دیدارکر کے اپنی آنکھوں اور کلیجے کو ٹھنڈک پہنچانا چاہتا ہوں…اگر مجھے ان کا آخری دیدار نصیب نہ ہوا تو پھرمیں رو رو کر مرجاؤں گا…آخری جملہ ادا کرتے کرتے وہ روہانسا ہوگئے تو ہمارے لڑکوں نے ہماری تدفین کو فوری عشا سے فجر تک کے لیے ملتوی کردیااور ہم سوائے چپ چاپ پڑے رہنے کے کچھ نہ کرسکے…
رات کافی ہوچکی تھی،چونکہ ہماری تدفین فجر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی، اس لیے ہر کوئی کسی نہ کسی طرح وقت گزار رہا تھا۔ رات کے سناٹوں میں کہیں سے کسی کے زور دار خراٹے سنائی دے رہے تھے تو کہیں کسی نے طنزو مزاح کی محفل سجا رکھی تھی، کہیں کوئی موبائل پر گیم کھیل رہا تھا تو کہیں کوئی کسی کی گیم بجا رہا تھا،کہیںکسی نے اپنے فون ہی پر تھیٹر کھول رکھا تھا تو کوئی کیٹرینہ ، کرشمہ اور کرینہ کی باتیں کررہا تھا۔ وقفے وقفے سے کبھی دبے دبے تو کبھی زور دار قہقہے بھی بلند ہونے لگے تھے۔ موت کسی کی بھی ہو، عبرت ہوا کرتی ہے لیکن یہاں تو ’’ محترمہ عبرت النسائ‘‘ کا دور دور تک پتا نہ تھا ۔ان حالات میںہمیں اپنے مرنے پر ہی شک سا ہورہا تھا اور ہم اپنے ان بے حس دوست احباب اور رشتے داروں کے درمیان پڑے پڑے یہ فیصلہ نہیں کرپارہے تھے کہ مردہ کون ہے؟یہ سب کچھ ہم سے برداشت نہ ہوا توہم نے ایک ایسی فلک شگاف چیخ ماری کہ ہر سو افرا تفری مچ گئی۔ لوگ وحشت کے عالم میں ہونقوں کی طرح ادھر ادھر دوڑنے لگے اور ہم تھے کہ مسلسل غل غپاڑہ مچائے جارہے تھے…
ہم نے شور مچانااُس وقت بند کیا جب ہمیں مشکوک حیدرآبادی نے بری طرح سے جھنجھوڑکردکھ دیا … یہ دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے کہ ہم تو زندہ ہیں اورنہ صرف زندہ ہیں بلکہ اچانک انتقال کرجانے والے اپنے کسی دوست کے چہلم کی دعوت اڑا رہے ہیں۔ کسی عالیشان شادی خانے میں منعقدہ اس پر رونق محفل چہلم کو دیکھ کریوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ مرحوم کی دوسری شادی کی تقریب ہے جو ان کی اچانک وفات کے بعد رچائی جارہی ہے ۔ ہمارے دل میں یہ خواہش انگڑائیاں لینے لگی کہ ہمیں ’’چٹ موت۔ پٹ تدفین‘‘ کا پیکیج مل جائے تو پھر مرنے کا مزہ آجائے گا… اللہ تعالیٰ ہمیں قبر اور دوزخ کے عذاب کے علاوہ ’’ آخری دیدار‘‘ کی اذیتوں سے بھی محفوظ رکھے۔ آمین۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰