تعریف کرنے میں اعتدال کا رویہ
انسانی معاشرہ میں لوگ ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہتے ہیں، تعریف کے جواز، عدمِ جواز کا مدار لوگوں کے مزاج واحوال پر ہے۔ بعض لوگ اپنی بے جا تعریف کے لالچی ہوتے ہیں،لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں، اِس تعریف کی وجہ سے عجب، تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
مولانا ارشاد احمد
انسانی معاشرہ میں لوگ ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہتے ہیں، تعریف کے جواز، عدمِ جواز کا مدار لوگوں کے مزاج واحوال پر ہے۔ بعض لوگ اپنی بے جا تعریف کے لالچی ہوتے ہیں،لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف سننا پسند کرتے ہیں، اِس تعریف کی وجہ سے عجب، تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تعریف کرنا درست نہیں۔ نیز اِس مرض میں مبتلا شخص کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو منہ پر تعریف کرنے سے منع کرے۔
بعض افراد ممدوح کی نظروں میں اپنا مقام بنانے، خود کو نمایاں کرنے کے لیے بطورِ خوشامد تعریفیں کرتے ہیں۔ یہ تعریف خود غرضی، جھوٹ اور نفاق کے زمرہ میں شامل ہے اور ناجائز ہے۔
بعض لوگ دینی اعمال، دنیوی پیشہ میں اخلاص ومحنت سے ترقی کا سفر جاری رکھے ہوتے ہیں، اپنی کامیابی کو آخری منزل نہیں سمجھتے، بلکہ مزید ترقی کے متلاشی ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے سامنے اُن کی کامیابی کی اِس طرح مدح وتعریف درست نہیں، جس سے انہیں یہ تأثر ملے کہ آپ منزلِ مقصود پر پہنچ چکے، بہت کچھ حاصل کرچکے، مزید مشقتیں برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ۔ایسی تعریف کرنے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دوسرے شخص کی مدح وتعریف کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا: ’’تم نے اپنے بھائی کی گردن توڑ ڈالی۔‘‘ یہ جملہ متعدد بار ارشاد فرمایا۔
البتہ اگر تعریف سے حوصلہ افزائی مقصود ہو، کسی کی محنت وکامیابی پر تعریف کرکے اسے مزید ترغیب دینا مقصد ہو تو ایسی تعریف کرنے میں حرج نہیں، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بکثرت تعریف فرمایا کرتے تھے۔اِس سلسلہ میں بے شمار واقعات موجود ہیں۔
اسی طرح کسی کے احسان کے جواب میں اُس کی حقیقت پر مبنی تعریف کرنا،درحقیقت اُس کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ لوگوں کے احسان پرشکریہ ادا کرنا مطلوب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔
تاہم اسلام ایک معتدل دین ہے،ہر معاملہ میں اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے، افراط و تفریط سے بچنے کی تلقین کرتا ہے، اِس لیے جائز موقع پر تعریف کرنے میں بھی اعتدال کی روش بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں بالعموم اپنے پسندیدہ لوگوں کی تعریف میں حد سےتجاوز کیاجاتا ہے، مدح سرائی میں مختلف قسم کی بے اعتدالیاں رائج ہوچکی ہیں، مثلاًمروجہ جلسوں کے اشتہارات، علماء وخطباء کرام کے مبالغہ پر مبنی ایسے القابات سے بھردئیے جاتے ہیں، جو اُن میں سرے سے موجود نہیں ہوتے۔ ماضی کے جلیل القدر علماء سے بغیرکسی ادنیٰ وجہِ مشابہت کی موجودگی کے تشبیہ دی جاتی ہے۔ امام غزالیؒ، رازیؒ، انورشاہؒ کے ثانی ہر اشتہار پر نظر آتے ہیں۔
اسی طرح جلسہ کے دوران، بیان کرنے کے لیے کسی خطیب کو دعوت دینے سے انہی بےسروپا تعریفی کلمات سے نوازا جاتا ہے۔ خطیب صاحب کو جزم و یقین کے ساتھ علم وعمل، نیک وصالح ایسی صفات سے متصف کیاجاتا ہے۔ اِس طرزِ عمل میں متعدد مفاسد ہیں: ایک تو ایسی مبالغہ آمیز تعریفیں اُس صاحب کے سامنے ہی کی جارہی ہوتی ہیں، جس سے اُن کے عجب وتکبر میں مبتلا ہونے کااندیشہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں اپنی تعریف سننا ناگوار گزرتا ہو، مدح سے وحشت ہوتی ہو،ایسی صورت میں اُن کے منہ پر تعریف کرنا باعثِ تکلیف ہوگااور مسلمان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچانا جائز نہیں ہے۔
مزید برآں کسی شخص کی تعریف کرنے کی حیثیت اُس کے حق میں گواہی دینے کی ہے۔ تعریف کرنے والا گویا جزم و یقین سے گواہی دیتا ہے کہ یہ خوبی فلاں شخص میں پائی جاتی ہے۔ گواہی اُس امر کی جائز ہوتی ہے جس کا انسان نے خود مشاہدہ کیا ہو، اسے یقین کامل حاصل ہو۔ کسی کو عالم باعمل کہنے والا، نیک وصالح قرار دینے والا، ولی اللہ کے خطاب سے نوازنے والا،گویا اُس کی زندگی کے ہر لمحہ سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات خلافِ حقیقت ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کے ظاہر وباطن سے ہرگز واقف نہیں ہوسکتا، اِس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جزم و یقین سے کسی کی مدح وتعریف سے منع فرمایا، ارشاد ہے: اللہ کے سامنے کسی کو پاکیزہ، اصلاح یافتہ قرار نہ دو۔
البتہ اپنے گمان کے مطابق محتاط الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں، مثلاً میں فلاں شخص کو اچھا سمجھتا ہوں، میرے گمان کے مطابق وہ شخص نیک ہے۔ایسے محتاط الفاظ سےجس شخص کی تعریف کی گئی، اسے چاہیے کہ وہ تعریف سُن کر اپنے حالات کا تجزیہ کرے، گریبان میں جھانکے، اگر اُس میں وہ خوبیاں موجود ہیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرکے استقامت کی دعا کرے اور مزید محنت جاری رکھے، تاہم اگر وہ خوبیاں موجود نہیں تو خود کو لوگوں کے گمان کے مطابق بنانے کی کوشش کرے۔
٭٭٭